معاشی استحکام کا خواب۔۔۔۔!

وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، استحکام آ گیا ہے اب شرح نمو بڑھنے کی طرف جانا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈاربارہ ہزارایک سو تریسٹھ(12163 )ارب روپے کے ریونیو ہدف کے لئے بھی پر اعتماد ہیں، البتہ صنعت کار اور ماہرین معیشت وفاقی ریونیو کے اس بلند ترین ہدف، جو رواں مالی سال کے ہدف سے قریب اڑتیس فی صد زیادہ ہے ‘کے حوالے سے متذ بذب ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کے دو کلیدی شعبے صنعت اور خدمات تشویشناک صورتحال سے دوچار ہیں ۔ خدمات کا شعبہ پچھلے کئی سال سے جی ڈی پی کے سب سے بڑے شراکت دار کے طور پر نمایاں رہا ہے۔ جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ اٹھاون فی صد رہا ہے ‘مگر رواں مالی سال خدمات کے شعبے کی نمو صفر اعشاریہ چھیاسی(0.86 )جب کہ صنعت کاری جیسے اہم ترین شعبے کی شرح نمو منفی دو اعشاریہ چورانوے( 2.94)فی صد رہی۔ یہی دو شعبے سب سے زیادہ ریونیو پیدا کرتے ہیں اور ان شعبوں کی موجودہ حالت کے پیش نظر آنے والے مالی سال کے دوران ان میں کسی انقلابی تبدیلی کی بظاہر کوئی امید نہیں دکھائی نہیں دیتی‘ چنانچہ یہ سوال بے جانہیں کہ جو شعبے اس سال سات ہزار ارب روپے بھی مہیا نہیں کر پائے، وہ آنے والے سال بارہ ہزار ارب سے زیادہ کیوںکر مہیا کر پائیں گے؟ یہ سوال ٹیکس وصول کرنے والے نظام کی کارکردگی کے حوالے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ خوش آئند ہے مگراڑتیس(38)فی صد کی بلند ترین شرح کو پہنچی ہوئی مہنگائی کو آنے والے مالی سال کے افراط زر کے تخمینہ کی حد تک لانے کے لئے حکومت کو فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہوگی اور اس کے لئے بطور خاص خوراک اور توانائی کی مہنگائی کو کم کرنا ہو گاجو اس وقت عوام کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال ہے۔ خوراک کی مہنگائی جو شہری علاقوں میں سینتیس(37)اور دیہی علاقوں میں اکتالیس(41)فی صد تک پہنچ چکی ہے، نتیجہ خیز اقدامات کی متقاضی ہے ‘اس کے لئے خوراک کی پیداوار کو بہتر بنانا ہوگا۔ مالی سال2024 کے لئے زرعی شعبے کے لئے جو اعلانات کئے گئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ خوراک کی پیداوار میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کی صورت میں کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ معیشت کے جو خد و خال اس سال کے اقتصادی سروے میں دکھائی دیتے ہیں، ان کے سامنے وزیر خزانہ اسحق ڈارکا استحکام کا دعویٰ قبل از وقت معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً ملکی معیشت میں دم خم ہے اور جب بھی معتدل حالات میسر آتے ہیں پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کرتی ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے حالات میسر آچکے ہیں؟اس سلسلے میں حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے‘ رواں مالی سال کے خساروں میں گزشتہ برس کے سیلاب کا بھی عمل دخل ہے مگر سیاسی انتشار سے پیدا ہونے والی بے یقینی تباہ کن سیلاب سے بڑھ کر معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ سیلاب کے اثرات تو وقت کے ساتھ کم ہو چکے مگر سیاسی بے یقینی بدستور موجود ہے، اور یہ حالات معیشت کو سنبھالنے میں بلاشبہ ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔اس سلسلے میں بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ آنے والے مالی سال کے دوران معیشت کو مستحکم کرنے کی غرض سے عالمی مالیاتی اداروں کا تعاون بھی ناگزیر ہے مگر اس کے لئے داخلی استحکام کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ؛ چنانچہ معاشی استحکام کے قبل از وقت دعوے کرنے کے بجائے اس کے بنیادی تقاضے پورے کرنے کی خاطر سنجیدگی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کی اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت میں دو رائے نہیں، قریب پچیس کروڑ کی آبادی پاکستان کو ایک پرکشش مارکیٹ کے طور پر نمایاں کرتی ہے اور متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کی غرض سے یہ ملک اس خطے میں خصوصی کشش کا حامل ہے تاہم سرمایہ کاری کا ہر فیصلہ داخلی استحکام کے تناظر میں کیا جاتا ہے؛ چنانچہ استحکام کی شرط اول یعنی داخلی استحکام غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان کی جانب راغب کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔