میثاقِ معیشت‘ضرورت و اہمیت 

وزیر اعظم شہباز شریف نے بجٹ کے حوالے سے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سیاسی عدم استحکام سے معیشت کو در پیش چیلنجز کی طرف اشارہ کیا اور معیشت کیلئے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میثاق معیشت خوشحالی کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ سیاسی استحکام اور معیشت کس طرح لازم و ملزوم ہیں ،گزشتہ سال بھر کے دورانیے میں اہل پاکستان اس کو بہتر طور پر سمجھ گئے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ معاشی ترقی کا داخلی سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ سیاسی استحکام ہو گا تو حکومت اعتماد کیساتھ دیر پا ترقیاتی منصوبہ بندی پر توجہ دے سکے گی اور طویل مدتی منصوبے شروع کیے جاسکیں گے۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام معاشی مشکلات کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے، جس کی قیمت ہم ترقی کی سست رفتاری کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں وہ ممالک جہاں سیاسی حالات مستحکم ہیں کم وقت میں حیران کن تیزی سے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو کافی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اس وقت شرح نمو 3.5 فیصد ہے اور اس پر بھی بہت لے دے ہو رہی ہے کہ کیونکر حاصل کیا جائے گا۔ ورلڈ بینک نے تو مالی سال 2024 میں دو فیصد شرح نمو کی پیشگوئی کی ہوئی ہے۔ 25 کروڑ کے قریب آبادی اور بے بہا قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کیلئے ترقی کی یہ رفتار افسوسناک ہے۔ افسوسناک اس لحاظ سے کہ ہم اپنے قومی وسائل سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر پار ہے اور تشویشناک اسلئے کہ پاکستان جیسے نوجوان اکثریتی آبادی والے ممالک کیلئے تیز ترین معاشی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ روزگار کے وافر مواقع پیدا کر کے آبادی کو مصروف کیا جائے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سماجی مسائل جنم لیتے ہیں،۔ اسلئے نہایت ضروری ہے کہ معاشی مسائل کی جانب توجہ دی جائے تا کہ اگلے دو ڈھائی عشروں میں جب ہمارا ملک اپنی پہلی صدی مکمل کرے تو صورتحال آج سے نمایاں طور پر بہتر ہو اور ہم قومی زندگی کی پہلی صدی کو ترقی و خوشحالی سے موسوم کر سکیں۔ یہ کام آج سیاسی اتفاق رائے اور مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ایک طے شدہ اور آزمودہ بات ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، چنانچہ ضروری ہے کہ چارٹر آف اکانومی کے تصور کو سنجیدگی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ لیا جائے۔ خوشی کی بات ہے کہ ملک کی دوسب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ذہنوں میں یہ خیال تازہ ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے بھی چارٹر آف اکانومی کی ضرورت کا ذکر کیا تا کہ طویل مدتی پالیسیاں بنائی جاسکیں۔ سیاسی رہنماﺅں کے یہ خیالات قابل قدر اور حوصلہ افزا ہیں، مگرافکار کا عملی ثبوت بھی سامنے آنا چاہئے۔ ملک کے معاشی حالات نے سیاسی رہنماﺅں پر بہت کچھ واضح کر دیا ہے۔ آج جو راہنما یہ نہیں سمجھتا کہ معاشی استحکام اور پاکستان کی راہ میں سیاسی انتشار ایک بڑی رکاوٹ ہے اس کے تدبر پر شک کیا جائے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ معیشت پانچ دس سال کی بات نہیں یہ ہماری آنیوالی نسلوں کیلئے ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ آنیوالی نسلوں کیلئے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی بنیاد رکھنے میں کوئی لمحہ ضائع نہ کیا جائے۔ اور یہ ہدف حاصل کرنا کوئی ناممکن کام نہیں بلکہ لگن اور خلوص نیت سے کام کیا جائے تو پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کے درجے سے آگے لے جا کر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں محنتی افرادی قوت بھی موجود ہے ضرورت ہے تو صرف ان وسائل اور افرادی قوت سے بھرپور استفادہ کرنے کی۔ اور اس میں تاخیر کی گنجائش ہر گز نہیں۔