شاید دنیا کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئی بھی ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوگا تو ان کا بوجھ بھی سب پر ہی پڑے گا ۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اور بین الاقوامی برادری ہمیں سمجھانے اور ماحول دوست اقدام کرنے کی نصیحت کر تی نظر آرہی ہے ۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایشیا اور بحر الکاہل کیلئے قائم کردہ اقتصادی اور سماجی کمیشن کی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے انہیں جدید ٹیکنالوجی سے تلف کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جبکہ ہماری حکومتوں کے نزدیک اس مسئلے کا حل فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی لگانا اور کسانوں پر بھاری جرمانے عائد کرنا رہا ہے۔ اس اقدام سے وقتی طور پر آلودگی میں کمی ضرور واقع ہوتی ہوگی، لیکن یہ مستقل حل نہیں۔ کاشتکار برادری بھی اپنے محدود وسائل اور دھان کی کٹائی کے بعد گندم کی بوائی کیلئے میسر مختصر وقفے کی وجہ سے فصلوں کی باقیات جلانا ہی واحد حل سمجھتی ہے، لیکن اس آگ سے پیدا ہو نیوالا دھواں فضا میں پہلے سے معلق آلودگی میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر سموگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے 20 فیصد حصے کا ذمہ دار فصلوں کی باقیات جلانے کا عمل ہے۔ جدید زرعی مشینری کے استعمال سے فصلوں کی باقیات جلانے کے بجائے انہیں زمین کے اندر کھاد بننے کیلئے دفنانے
سے نہ صرف کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ زمین کی زرخیزی میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا، اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کسانوں کو سستے داموں جدید زرعی مشینری فراہم کرے۔ دوسری صورت میںزمیندار اپنی آسانی کے لئے روایتی طریقہ پر انحصار کرتے ہیں، اور صرف فوگ کی وجہ سے ہوائی اور زمینی ٹریفک میں آنے والے خلل کے باعث ہونے والے نقصان کا تخمینہ اربوںڈالر میں ہے، اس سے انسانی صحت پر ہونے والے اثرات ایک الگ مسئلہ ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث قدرتی آفات بھی تباہی کی کہانی ہے، حکومت اگر اس جانب سنجیدگی سے توجہ دے، کسانوں کو بھاری جرمانے کی بجائے، شعور اور سہولیات دے تو اس صورتحال پر کنٹرول پایا جا سکتا ہے ۔حالیہ بجٹ میں حکومت نے زراعت کی ترقی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ خوش آئند ہیں تاہم اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو جدید مشینر ی اور زیادہ پیدوار دینے والے بیج مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے ۔اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ مغربی ممالک میں سے کئی ترقی یافتہ ممالک نے زراعت کو ہی اپنی ترقی کی بنیاد بنا یا ہے اور وہاں پر زراعت کوجدید خطوط پر استوار کرکے زرعی پیدوار کی برامد کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی کے مقام کو پایا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمیں جو زمین ملی ہے اور جس طرح دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے پا س ہے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ترقی اور خوشحالی کیلئے زراعت کو اولین ترجیح قرار دیا جائے۔ زراعت ہی وہ شعبہ ہے جو ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتاہے کیونکہ زیادہ تر افرادی قوت کا تعلق دیہات سے ہے اور زراعت پر ان کا انحصار ہے ۔