آرٹیکل 62 اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم

سینیٹ نے گزشتہ روز الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کا مسودہ قانون کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے، جس کی رو سے جہاں آئین میں مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نا اہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ملک کے جمہوری سیاسی نظام کیلئے یہ قانون سازی غیر معمولی اہمیت کی حامل معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کا رواج ختم ہو گا۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نا اہلی ایک عدالتی تشریح کا نتیجہ تھی جو سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے 2018 ء میں کی تھی مگر چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال نے گزشتہ برس اکتوبر میں فیصل واوڈا کی تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کو ڈریکو نین قانون قرار دیا تھا۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت دی جانیوالی تاحیات نا اہلی کی سزا قانونی اور سیاسی حلقوں میں شروع دن سے وجہ تشویش رہی ہے۔ ہر دو طبقات کی غالب رائے یہ ہے کہ آئین کی مذکورہ شق سزا کی کسی مدت کا تعین نہیں کرتی؛ چنانچہ اس آئینی خاموشی کو تاحیات نا اہلی کی سزا قرار دے دینا آئین کا منشا نہیں۔ نا اہلی کی اس سزا کو زیادہ سے زیادہ ایک انتخابی مدت کے برابر ہونا چاہئے، کسی کو عمر بھر کیلئے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے محروم کر دینا اس لیڈر ہی کو نہیں اس کے حامی عوام کو بھی ان کے جمہوری حق سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان کی جانب سے اگر چہ اس قانون سازی کی مخالفت کی گئی، اور یہ قرار دیا گیا کہ یہ سب کسی فرد واحد کوفائدہ پہنچانے کیلئے کیا جارہا ہے تاہم وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قانون سازی سیاستدانوں کیلئے منجملہ ایک اہم قانون سازی ثابت ہو سکتی ہے اور ملک کے جمہوری تناظر میں بھی اس کی خصوصی اہمیت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں جمہوریت پون صدی میں بھی کیوں مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکی اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے غیر جمہوری رویے ہیں کہ وہ فریق مخالف کی ناک رگڑنے کیلئے پورے نظام کو داؤ پر لگانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ یہ تو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا معاملہ ہے جسے سپریم کورٹ خود کالا قانون قرار دے چکی ہے مگر یہیں تک محدود نہیں اور بھی کئی قسم کے قوانین ہیں جو اصلاح طلب ہیں اور سیاسی رہنما ایک حد تک ان کی اصلاح چاہتے بھی ہیں، مگر اسی لمحے ان پر مخالف فریق کو پھانسنے کا خیال غالب آ جاتا ہے یوں تاریخ پاکستان میں سیاسی رہنما ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ملتے ہیں۔ ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ اس سلسلے کو ترک کرتے ہوئے دور اندیشی سے کام لیا جائے۔ آج اگر زیادہ سے زیادہ پانچ برس کی نا اہلی کا قانون منظور ہو رہا ہے تو اسے ہونے دیں اسی میں جمہوریت کی بھلائی ہے اور یقینا سب سیاسی رہنماؤں کا بھلا ہے۔ اس موقع پر تاحیات نا اہلی کی تشریح کے نفاذ پر قانونا پابندی عائد کرنے کا کس کو فائدہ ہے، یہ دیکھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس سے ملک کے جمہوری نظام کو تقویت ملتی ہے یا نہیں نیز یہ کہ آئین سے تجاوز کا جو آلہ کار تخلیق کیا گیا تھا اسے ختم کرنا آئین کا تقاضا ہے یا نہیں؟ جب ایک سزا آئین میں درج ہی نہیں تو محض تشریح کے آسرے پر کسی کوعمر بھر کیلئے عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کرنا عوام کے حق انتخاب کو رد کرنے کے مترادف ہے یا نہیں؟ اس تناظر میں مذکورہ قانون سازی ملک کے جمہوری نظام اور آئین کی عملداری سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے؛ چنانچہ حکومتی ارکان کی اس سعی کی تعریف کی جانی چاہیے۔ یہ ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ جمہوریت کی راہ سے قانونی کانٹے ہٹائے اور سبھی جمہوری جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔