بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی کو اندوہناک حادثے سے وسطی پنجاب اور آزاد کشمیر کے سینکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے‘ 10 جون کو لیبیا کے شہر طبرق سے نکلنے والی اس بد قسمت کشتی پر چارسو کے قریب پاکستانی سوار تھے، جبکہ بچنے والے کل 78افراد میں صرف 12 پاکستانی بتائے جاتے ہیں‘ انسانی سمگلنگ کی بھینٹ چڑھنے والے پاکستانیوں کے جانی نقصان کا شاید یہ سب سے بڑا واقعہ ہے‘ اس دلخراش سانحے پر حکومت کی جانب سے سوموار کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ، جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے‘ سہانے مستقبل کا خواب دیکھنے والے نوجوان یورپ کی سرحدوں تک رسائی کو اپنے اس خواب کی تعبیر سمجھتے ہیں اور اس کیلئے ہر طرح کے خطرات مول لینے اور جان جوکھوں میں ڈالنے سے بھی نہیں کتراتے ‘ اس حسرت میں یونان کی راہوں میں ان گنت پاکستانی اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین یونان پہنچنے کیلئے ماضی میں عموما ًترکی کا راستہ استعمال کیا
کرتے تھے، جہاں جنگلوں پہاڑوں اور سمندری حدود کو عبور کرتے ہوئے یونان پہنچنے کی کوشش کی جاتی ۔ اس راہ کا ہر قدم موت کی وادی میں اترنے کے مترادف تھا۔ نجانے کتنے ہی ان خطرناک حالات میں لقمہ اجل بن گئے‘ اب کچھ عرصے سے لیبیا یورپ میں انسانی سمگلنگ کی اہم منڈی کے طور پر نمایاں ہوا ہے۔ 14 جون کو حادثے کا شکار ہونے والی کشتی جو بنیادی طور پر مچھلیاں پکڑنے والا ایک پرانا ٹرالر تھا کی جو تصویر یونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے عالمی میڈیا کو جاری کی گئی ہیں ان میں ڈوبنے والی کشتی جس طرح کھچا کھچ بھری ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لیبیا کے راستے انسانی سمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے‘ ایک اندازے کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر 750افراد سوار تھے اور ان میں نصف کے قریب پاکستانی تھے‘ گجرات، منڈی بہاالدین، گوجرانوالہ، ڈسکہ اور گرد و نواح کے متعدد علاقوں سے ایسے درجنوں غمزدہ خاندانوں کی نشاندہی ہوئی ہے، جن کے پیارے اس المناک حادثے کے بعد لاپتا ہیں‘ اس سانحے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی قائم کی گئی ہے نہیں معلوم اس کا دائرہ کار کیا ہے اور وہ اپنے کام کا آغاز کس نکتے سے کرے گی مگر یہ ایک کھلا راز ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور معاشی مواقع کی قلت نوجوان کیلئے ترک وطن کا بنیادی محرک ہے، اور اس کیلئے وہ انسانی سمگلروں کو لاکھوں روپے دینے اور جان خطرے میں ڈالنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اب جبکہ یہ خوفناک حادثہ ہو چکا ہے اور انسانی سمگلروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہے مگر یہ کاروائی ان تین سو سے زائد گھروں کے نقصان کی تلافی نہیں کر سکتی‘ ممکن ہے کہ ان کاروائیوں سے کچھ مزید
لوگ انسانی سمگلروں کا لقمہ بننے سے بچ جائیں مگر کیا اس سے مسئلے کا تدارک ہو جائے گا ؟ کیا انسانی سمگلنگ کا دھندا رک جائے گا؟ اس کا جواب ہاں میں دینا آسان نہیں کیونکہ یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں نو جوانوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں اور نوجوان نسل کو اپنا مستقبل یہاں بنانےکا امکان دکھائی دینے لگے ‘ جب تک ایسا نہیں ہوتا پاکستانی جوان ترک وطن کی کوششوں میں صحراں، جنگلوں اور پانیوں میں اپنی جانیں گنواتے رہیں گے‘ فی زمانہ ترقی یافتہ دنیا میں ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے، اگر حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی سے اقدامات کرے اور ترقی یافتہ ممالک کو افرادی قوت کی برآمدگی کی قانونی سہولتیں حاصل کر سکے تو نوجوان نسل کیلئے محفوظ اور قانونی طریقے سے بیرون ملک ملازمت کے مواقع حاصل کرنے اور باعزت روز گار کمانے میں یہ بڑی سہولت ہوگی اسکے ساتھ نسانی سمگلنگ کی روک تھام کے قوانین اس قدر سخت کر دیئے جائیں کہ اس بھیانک جرم کا سد باب قانونی طریقے سے ہو سکے۔