پاکستان میں اس وقت لوگ سوگ اور صدمے کی کیفیت میں ہیں‘ یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے نے کئی گھروں کے چراغ گل کردیئے ہیں‘ ملک کے تقریباً ہر حصے میں کوئی نہ کوئی گھر کسی نہ کسی حد تک اس سے متاثر ہے؛ اس اندوہناک اور انسانیت سوز واقعے کے بعد حکومت پاکستان نے قومی سوگ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاون کا فیصلہ بھی کیا‘ اس حوالے سے کئی گروہوں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے‘بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کی غرض سے پاکستانی نوجوانوں کے لئے قانونی اور غیر قانونی ذرائع دونوں موجود ہیں‘ غیر قانونی ذرائع سے پاکستانی نوجوانوں کا بیرون ملک روز گار کمانے کا خواب اکثر و بیشتر ایک جان لیوا سفر ہوتا ہے‘ نوجوان انتہائی نامساعد اور پرخطر حالات میں کئی کئی دن بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہوئے پیدل سفر کرکے یا مال بردار گاڑیوں اور کشتیوں میں سفر کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں‘اس سفر میں کئی تو راستے میں ہی ہار مان کر واپس آجاتے ہیں مگر وہ اپنے خاندان کی جمع پونجی، یا زمین جائیداد گنوا بیٹھتے یا پھر بھاری قرض میں دب جاتے ہیںپاکستان سے بیرون ملک ملازمت کے لئے جانے کا عمل 1970ءکی دہائی میں تیزی سے شروع ہوا۔ جب گاﺅں دیہات سے لوگوں کو خلیجی ملکوں میں ملازمت کے مواقع فراہم کئے جانے لگے‘کئی سال قبل ہمارے دوست اور صحافی قاضی حسن نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک تحقیقاتی اوردستاویزی رپورٹ تیار کی تھی‘ جس میں وہ خود کو انسانی اسمگلروں کے حوالے کر کے ایران تک جاتے ہیں‘ وہ ایران سے ترکی جانے والے پرخطر راستے سے قبل ہی واپس پاکستان لوٹ آئے مگر اس رپورٹ نے انسانی اسمگلنگ کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو بہت اچھی طرح اجاگر کیا تھا‘پاکستان سے سالانہ 30 سے 40 ہزار نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ، جاپان کوریا سمیت خلیجی ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں؛ یورپ جانے کے روٹ میں سب سے خطرناک مرحلہ ایران اور ترکی کے درمیان پیدل سفر کرنا ہے‘جس کو عام طور پر ڈنکی مارنا کہتے ہیں‘ سرد پہاڑی دشوار گزار اور بیابان راستے میں اگر کوئی زخمی یا بیمار ہوجائے تو وہاں کسی قسم کی مدد دستیاب نہیں ہوتی‘اپنی جان بچانے کے لئے بیمار اور زخمی ہونے سے بچنا ہوتا ہے؛اس سفر میں پیدل چلنے کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کے پیروں پر ایسے زخم بھی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کاٹنا پڑسکتا ہے‘ ڈنکی کا سفر ایک بے رحمانہ سفر ہے جس میں بیماری، زخم، بھوک پیاس یا تھکاوٹ جان لے لیتی ہے۔زمینی راستے میں بارڈر فورسز کے ہاتھوں گرفتاری یا ڈنکی کی طرح موت کا خطرہ ہوتا ہے‘ اب سمندر کے ذریعے یورپ میں داخلے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں بھی اکثر تارکین وطن موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یورپ، جاپان، کوریا اور دیگر ملکوں میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کی بہت زیادہ کھپت موجود ہے‘ اس لئے بہتر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو قانونی طور پر بیرون ملک ملازمت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے اور حکومتی سطح پر اقدامات کئے جائیں‘ نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہوگا کہ بیرون ملک ملازمت کےلئے غیر قانونی طور پر دیوار پھلانگنے کے بجائے قانونی طریقہ اپناتے ہوئے دروازے سے داخل ہوں۔