وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے باوجود انتہا پسند بھارتی حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ وزیر دفاع کی یہ گفتگو بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکہ اور وائٹ ہاس میں بھارتی وزیر اعظم اور امریکی صدر کی ملاقات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثرات اور بے بنیاد الزامات شامل کئے جانے کے تناظر میں اہم ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میںامر یکہ کاساتھ دے کر پاکستان نے خود کو طویل مدتی خطرات اور معاشی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ پچھلے 40 سال کے دوران پاکستان نے کئی مواقع پرامریکہ کا ساتھ دیا، یہ ایسی جنگیں تھیں جو ہماری نہیں تھیں، مگر ان میں امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نے خود کو دہشت گردی کا ہدف بنالیا؛ چنانچہ آج پاکستان کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، یہ اسی اتحاد کا شاخسانہ ہے اور آج بھی پاکستان امریکی رفاقت کی قیمت چکا رہا ہے۔ قریب دو دہائیوں کی جنگی مہم جوئی کے بعد امریکہ تو افغانستان سے نکل چکا ہے مگر اس کی جنگ کی باقیات افغانستان کیساتھ ساتھ پاکستان کیلئے بھی بدستور خطرہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس خطے میں امریکی دخل اندازی سے پہلے اس قسم کے حالات نہیں تھے اور اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل امریکی در اندازی کا ہی نتیجہ ہے، جس کی سب سے زیادہ قیمت چکانے والے ممالک میں پاکستان اگر پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور ہے۔ پچھلے چالیس پچاس برس کی علاقائی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ منظر نامہ بنتا ہے کہ اس دوران جو ممالک امریکہ کے جتنے قریب رہے انہیں حصہ بقدر جثہ اس کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ وہ ممالک جنہوں نے امریکہ سے فاصلہ رکھا بچے رہے ۔ افغانستان
میں مغربی اتحاد کیلئے سب سے زیادہ تعاون کرنے والا پاکستان اس امریکہ اورمغربی اتحادیوں کیلئے اجنبی بن چکا ہے۔ اس کا احساس یوں تو پچھلے کئی سال سے ہورہا تھا مگر بھارتی وزیر اعظم کے امریکی دورے اور امریکی صدر سے ملاقات کے اعلامیہ میں پاکستان کے حوالے سے دہشت گردی کے ذکر سے یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ بہر حال یہ صورتحال پاکستان کیلئے کچھ سیکھنے کا موقع بھی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسباب کی دنیا میں مقام و مرتبہ بنانے کیلئے خود کو مادی اعتبار سے ترقی دینا ناگزیر ہے۔ نریندر مودی جسے گجرات کے قصائی کا لقب ملا اور مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم کی سر پرستی پر امریکہ ویزا دینے کو تیار نہیں تھا، اگر آج امریکی انتظامیہ اس کیلئے رطب اللسان ہے تو اس کی ایک وجہ معاشی مفادات ہیں۔ یقینا اس میں چین کے خلاف بھارت کو بلہ شیری دینے کا چکما بھی ہے ۔چنانچہ امریکی اور بھارتی بیان بازی سے بددل ہونے کے بجائے ہمیں خود کومستحکم کرنے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک اور حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم نے قومی زندگی کا بیشتر حصہ ایک امریکی دوستی میں ضائع کر دیا ہے۔ پاکستان جیسے کسی ملک کو اپنے عالمی تعلقات کے سلسلے میں وسیع النظر ہونا چاہئے ۔ مغرب کیساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مگر چین اور روس کیساتھ تعلقات کے معاملے میں ہمیں زیادہ پر عزم ہونے کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مغرب کے بجائے مشرق کی طرف دیکھ کر چلیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صدی مشرق کی طرف طاقت کا محور پلٹنے کی ہے چین نے ایشیا‘ افریقہ اور یورپ میں جس طرح ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلایا ہے اس نے چین کے اثرورسوخ میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے اور اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی پر غور کر رہے ہیں جن میں پاکستان ‘ روس‘ ایران سمیت برازیل اور ارجنٹائن قابل ذکر ہیں اگر ڈالرکے مقابلے میں چینی کرنسی میدان میں مضبوط ہوگئی تو اس کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا۔