اضافی ٹیکسوں کا نفاذ

قومی اسمبلی نے اتوار کے روز مالی سال 2023-24 کا بجٹ 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کیساتھ منظور کیا ۔ مالیاتی ترامیم کے ذریعے جن شعبوں سے اضافی وصولی کا ہدف طے پایا ہے ان میں پٹرولیم مصنوعات،کھاد، تنخواہ دار طبقہ اور پراپرٹی کے لین دین کا کاروبار قابل ذکر ہے۔ ماہانہ دو لاکھ روپے تنخواہ پر جہاں پہلے 20 فیصد انکم ٹیکس عائد تھا اسے بڑھا کر ساڑھے بائیس فیصد کر دیا گیا ہے، کھادوں پر پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی جو 50 روپے فی لٹر تھی 60 روپے کر دی گئی ہے۔ اگر چہ اس بجٹ میں بعض تعمیری اقدام بھی نظر آتے ہیں، جیسا کہ سرکاری ملازمین کی دہری پنشن کے خاتمہ سے پنشن اصلاحات میں ایک ضروری پیش رفت ہوئی ہے ۔ ایسے اقدامات سے جو معاشی ڈھانچے کی اصلاح کا سبب بنیں یقینا قابل ستائش ہیں مگر ایک مفید اور منطقی اقدام کے سابق ولاحق میں کئی ایسے اقدامات، جو توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنیں یا زرعی پیداواری لاگت بڑھنے سے خوراک کی مہنگائی کا سبب بنیں یا تنخواہ دار طبقہ جو اس ملک میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے چند ایک طبقات میں شامل ہے پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد دیا جائے تو ایسے اقدامات عوام کیلئے کڑوی گولی ثابت ہوں گے۔ تعجب ہے کہ ہر مرتبہ ٹیکس وصولیوں کے نظام کو موثر بنانے کے بجائے انہیں آزمودہ مدات پر بوجھ بڑھائے چلی جاتی ہے۔ مگر اس سے عام آدمی کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے طبقے کی ٹارگٹڈ امداد کیلئے حکومت نے اضافی فنڈز رکھے ہیں، مگر افراط زر کی بلند ترین شرح اور روزگار کے مواقع میں نمایاں کمی کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصے کے دوران لوگوں کے مالی بوجھ میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اور ان حالات میں خط غربت سے نیچے لڑھکنے والے افراد کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں یہ امداد بہت محدود ہے ۔ نقد امداد کے اس منصوبے کی افادیت اپنی جگہ مگر حکومت کو ان لوگوں کیلئے بھی سوچنا چاہئے جو کسی حکومتی امداد کے اہل نہیں اور افراط زر کی بدحالی نے ان کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل تر کر دیا ہے۔ جب حکومت پٹرولیم لیوی میں یکشمت دس روپے فی لٹر اضافہ کرے گی یا کھادوں پر ایکسائز ڈیوٹی لگائے گی تو یہ ممکن نہیں کہ اسکے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کے اثرات سماج کے کمزور ترین طبقے تک نہ پہنچیں ۔ جہاں تک تنخواہ دار طبقے کی بات ہے تو یہ اضافہ صرف انکم ٹیکس کی حد تک کہاں رہتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیا پر اضافی ٹیکسوں سے یہی درمیانہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ طبقہ معیشت میں قوت متحرکہ کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس کی سرپرستی سے بازار کی رونقیں بڑھتی ہیں، صنعتی پیداوار کی کھپت ہوتی ہے تو صنعت کا پہیہ حرکت میں رہتا ہے۔ مگر حکومتی محصولات میں اضافے سے جب آمدنی پر ضرب لگتی ہے تو خواہشات دب جاتی ہیں اور اس کا اثر معیشت پر دیر پا ہوتا ہے۔ چنانچہ نئے بجٹ میں ٹیکسوں کے بلند ترین اہداف سے قطع نظر ملکی آبادی کا وہ متحرک حصہ جو کچھ کما رہا ہے یا پیدا کر رہا ہے ٹیکسوں کا بوجھ اس طبقے کیلئے باعث تشویش ہوگا۔