حج 1444 ھ کے خطیب ڈاکٹر شیخ یوسف بن محمد نے اپنے خطبے میں امت مسلمہ کو اتحادکی تلقین اور منافرت سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اپنی اولادوں کو بھی اجتماعیت کی تاکید کرنی چاہئے اور ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی ہمیں انتشار سے بچائے اور متحد ہو کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اجتماعی حیات کے تناظر میں خطبہ حج کا دوسرا اہم نکتہ صاحب ثروت مسلمانوں کو خیر کے کاموں میں حصہ ڈالنے کی جانب متوجہ کرنا تھا۔ خطبہ حج امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کی بیداری کا اہم ذریعہ ہے جس سے ہمیں قومی معاملات کی تشکیل میں مدد حاصل کرنی چاہیے۔ چونکہ مسلم سماج میں ہر فرد اپنی جگہ ذمہ دار ہے امت ایک خاندان ہے تو اس کا ہر فرد اس خاندان کا رکن ؛ چنانچہ خاندان کی خیر و برکت، ترقی و خوشحالی کا انحصار ہر فرد کے احساس ذمہ داری پر ہے؛ اس لیے انفرادی سطح پر ہم میں سے ہر ایک کو ان ذمہ داریوں کے معاملے میں حساس رہنا چاہیے۔ یہ احساس اجتماعی سوچ میں سرایت کر جائے تو پھر نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے گا نہ کسی کی حق تلفی نہ ملاوٹ، دھوکا دہی اور فریب سے دوسرے کو نقصان پہنچانے کی سوچ پیدا ہوگی۔ مسلم سماج بنیادی طور پر ایسا ہی تھا، مگر گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ؛ چنانچہ اس کا نقصان ہمیں اپنے سماج میں بڑی شدت سے ہو رہا ہے۔ صداقت، خلوص احترام آدمیت، ہمدردی، جان و مال اور عزت کا تحفظ شہری حقوق کی نگہداشت یہ ہمارا ملی اثاثہ تھا مگر امتداد زمانہ میں ہم اس سے بتدریج محروم ہوتے چلے گئے اور دیگر قوموں نے ہم سے بڑھ کر ان اصولوں کی پاسداری کا ثبوت دیا۔ یہ قومیں آج ترقی یافتہ اور صف اول کی دنیا شمار کی جاتی ہیں، علم و حکمت اور آئین و تمدن میں جن کی سرداری مسلمہ ہے جبکہ ہمارا سماجی وجود انتشار کا شکار اور ہمارے وسائل بے قدری سے دوچار ہیں۔ ان حالات میں ملی اتحاد اور یکجہتی کی جانب توجہ دلانا نہایت ضروری ہے کیونکہ قومی یگانگت ہی ہمیں ان حالات سے بہتری کی جانب بڑھنے پر اکسا سکتی ہے۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ممالک اس جانب نہ صرف متوجہ ہوئے ہیں بلکہ اس حوالے سے قابل ذکر پیش رفت بھی نظر آتی ہے۔ چند برس پہلے کی نسبت آج عالمی سطح پر مسلم ممالک کے باہمی تعلقات نمایاں طور پر بہتر ہیں اور باہمی اعتماد کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس قابل قدر پیش رفت کا پرتو مسلم معاشروں کے اندر بھی دکھائی دینا چاہیے جہاں آج بھی ایک دوسرے کے حال سے بے فکری پائی جاتی ہے اور قومی وسائل سے استفادہ کرنے کی سوچ میں جذبہ قومیت کا فقدان ہے۔ آج کئی مسلم ممالک کے پاس کافی مادی وسائل ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کے پاس بہترین تربیت یافتہ اور قابل افرادی قوت ہے؛ چنانچہ افرادی قوت اور مادی وسائل کا اتصال امت مسلمہ کی اجتماعی ترقی کے لیے مثالی حالات پیدا کر سکتا ہے اور یہ جڑت ہمارے لیے باعث اجر بھی ہوگی کیونکہ ہمارا اتفاق و اتحاد ہمارے دین کا منشا ہے۔ امت مسلمہ کی حیات اجتماعی کے علاوہ ہم اہل پاکستان کو اس خطبہ حج سے اپنے سماجی حالات اور تمدنی ترقی کے لیے بھی بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہمیں انتشار اور منافرت کے حوالے سے دین کی واضح ہدایات اور اس کے مقابلے میں انفرادی کردار اور ذمہ داریوں سے خبر دار رہنا چاہئے۔ دین ہمیں افواہیں پھیلانے سے منع کرتا ہے مگر ہمارے ہاں عوامی رابطے کی ویب سائٹس پر ہر ایک کو سماجی سوچ کے اس تاریک پہلو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ ان حالات میں خطبہ حج میں ملی اتحاد اور یکجہتی کے جن اصولوں کی جانب توجہ دلائی گئی ہے ہم سب کو مل کر ان پر عمل کی ضرورت ہے۔