بھارتی شہر الہ آباد کی عدالت عالیہ نے ”آدی پُرش“ کے فلم سازوں پر اس کے ڈائیلاگز کے حوالے سے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
بھارت کی ایک بڑی ہندو آبادی آدی پرش کی ریلیز کے بعد سے ہی غصے میں ہیں فلمسازوں پر ’مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔
فلم آدی پرش ہندوؤں کی مذہبی کتاب ”رامائن“ پر مبنی ایک افسانوی ایکشن فلم ہے۔
عدالت نے فلم کے شریک مصنف منوج منتشیر شکلا کو کیس میں فریق بنانے کی ہدایت دی اور نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے ایک درخواست کی سماعت کی جس میں آدی پرش پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فلم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ فلم میں مکالموں کی نوعیت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ رامائن ہمارے لیے ایک مچال ہے۔ لوگ گھر سے نکلنے سے پہلے رام چریت مانس پڑھتے ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ فلموں کو کچھ چیزوں کو نہیں چھونا چاہیے، آپ لوگوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں؟
دوران سماعت بینچ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ہم لوگ اس پر بھی آنکھ بند کر لیں کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دھرم کے لوگ بڑے سہشنو (برداشت کرنے والے) ہیں تو کیا اس کا ٹیسٹ لیا جائے گا؟‘
الہ آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ کیا فلم سرٹیفیکیشن اتھارٹی، جسے سنسر بورڈ کہا جاتا ہے، نے اپنی ذمہ داری پوری کی؟
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ لوگوں نے فلم دیکھنے کے بعد امن و امان کی صورت حال کو نقصان نہیں پہنچایا۔ بھگوان ہنومان اور سیتا کو ایسے دکھایا گیا ہے جیسے وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان چیزوں کو شروع سے ہی ہٹا دینا چاہیے تھا۔ کچھ مناظر ”اے“ (بالغ) کیٹگری کے لگ رہے ہیں۔ ایسی فلمیں دیکھنا بہت مشکل ہے‘۔
اسے ”انتہائی سنگین معاملہ“ قرار دیتے ہوئے، عدالت نے سوال کیا کہ سنسر بورڈ نے اس کے بارے میں کیا کیا۔ ڈپٹی سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فلم سے قابل اعتراض ڈائیلاگ ہٹا دیے گئے ہیں، جس پر عدالت نے ڈپٹی ایس جی سے کہا کہ وہ سنسر بورڈ سے پوچھیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
عدالت نے کہا، ’صرف اس سے کچھ نہیں ہوگا، آپ سین کے ساتھ کیا کریں گے؟ ہدایات لیں، پھر ہم جو کرنا چاہیں گے وہ ضرور کریں گے… اگر فلم کی نمائش روک دی گئی تو ان لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں انہیں ریلیف ملے گا‘۔
جواب دہندگان کی اس دلیل کے بارے میں کہ فلم میں ایک ڈسکلیمر کا اضافہ کیا گیا ہے، بینچ نے کہا، ’کیا جو لوگ ڈسکلیمر ڈالتے ہیں وہ ملک کے لوگوں اور نوجوانوں کو بے دماغ سمجھتے ہیں؟ آپ نے بھگوان رام، بھگوان لکشمن، بھگوان ہنومان، راون، لنکا کو دکھایا، اور پھر کہ رہے ہیں یہ رامائن نہیں ہے؟‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’ہم نے خبروں پر دیکھا کہ لوگ سینما گھروں میں گئے اور فلم کو بند کروا دیا۔ شکر ہے کہ کسی نے توڑ پھوڑ نہیں کی۔‘