پناہ گزینوں کی امداد

دنیا مہاجرین کے مسئلے سے پریشان ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں زمینی حقائق کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سال 2024ء میں 24 لاکھ سے زائد افراد محفوظ معاشی مستقبل اور تحفظ کی تلاش میں میں نکلیں گے اور یہ تعداد سال 2023ء کے مقابلے ’20فیصد‘ زیادہ ہوگی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان جو پہلے ہی قریب چودہ لاکھ افغان پناہ گزینوں کا گھر ہے‘ پناہ گزینوں کے اِس اضافے سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ سال مزید (کم سے کم) ’1 لاکھ 34 ہزار افغان‘ پاکستان کا رُخ کریں گے۔ پاکستان نے مہاجرین کے حوالے سے عالمی معاہدوں کی توثیق نہیں کر رکھی لیکن یہ اُن سبھی ممالک سے زیادہ بڑھ کر پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جو عالمی معاہدوں کے تحت ایسا کرنے کے پابند ہیں لیکن دنیا پاکستان کے ایثار اور انسانیت دوستی کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں کر رہی اور نہ ہی افغان حکومت پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پناہ گزینوں سے متعلق عالمی معاہدوں میں 1951ء کا پناہ گزین کنونشن یا پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلق 1967ء کا ہدایت نامہ (پروٹوکول) شامل ہیں جن پر مغربی ممالک خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کر رہے ’یو این ایچ سی آر‘ پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے تاہم مہاجرین کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنا کسی بھی ملک یا تنظیم کے لئے قابل برداشت نہیں۔ پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران‘ پاکستان کی معاشی کارکردگی یہی ہے کہ اِس نے صرف دیوالیہ سے گریز کیا ہے اور گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے متاثرین تاحال امداد و بحالی کے منتظر ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہیں! ایک ایسے ماحول میں جبکہ ملک سیاسی عدم استحکام کے دور سے بھی گزر رہا ہے تو ایسی صورتحال میں مزید مہاجرین کا بوجھ پاکستان کے لئے ناقابل برداشت و ناقابل تصور ہے ’یو این ایچ سی آر‘ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 38فیصد پناہ گزینوں کی میزبانی صرف پانچ ممالک کر رہے ہیں جن میں سے چار پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک ہیں۔ حالیہ برسوں میں بہت سے ترقی یافتہ اور امیر ممالک‘ خاص طور پر مغرب میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے خلاف جذبات میں شدت دیکھی گئی ہے۔ اٹلی اور برطانیہ جیسے ممالک میں دائیں بازو کی حکومتیں پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے بند کئے ہوئے ہیں جبکہ چند ممالک پناہ گزینوں کی میزبانی کے لئے پاکستان و دیگر ترقی پذیر ممالک کی کچھ مالی مدد کرتے ہیں لیکن اب ضرورت زیادہ بڑی ہے کہ مستحکم ممالک اپنے ہاں‘ زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کو مقیم کریں۔ اِس سے نہ صرف پاکستان جیسے ممالک کو درپیش بوجھ کم ہوگا بلکہ یہ پناہ گزینوں کے معاشی مستقبل کے لئے بھی بہتر ہے کیونکہ پاکستان میں جس قدر بلند مہنگائی کی شرح ہے‘ اُس میں پناہ گزینوں کے لئے گزربسر آسان نہیں رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مہاجرین کو بہتر مالی وسائل رکھنے والے ممالک مدد دیں۔ بین الاقوامی برادری کو نہ صرف پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے بوجھ کو زیادہ منصفانہ طور پر بانٹنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے پناہ گزینوں کا سیلاب کم کرنے کے لئے بھی کام کرنا ہوگا اور ایسا صرف ان تنازعات کو ختم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے جو بہت سے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دریں اثناء پاکستان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ طویل عرصے پناہ گزینوں کی ایک تعداد منشیات کے دھندے اور منظم جرائم میں بھی ملوث ہے جس کی وجہ سے غیر منصفانہ طور پر سبھی مہاجرین کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہوئے قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ مہاجرین انتہائی بے بس ہوتے ہیں۔ ہر شخص کے لئے اپنا وطن جنت نظیر ہوتا ہے اور وہ انتہائی مجبوری ہی کے عالم میں اپنا گھربار چھوڑتا ہے لہٰذا دنیا کو مہاجرین کی مشکلات پر غور کرتے ہوئے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہیئں۔ انسانیت کا تقاضا اور اسلامی دینی فریضہ بھی یہی ہے کہ مجبور و لاچار افراد کے ساتھ‘ حتی الوسع‘ مہربانی و ایثار کا سلوک کیا جائے۔