کیا قرضوں پر ملک چل سکتا ہے؟

پاکستان میں تقریباً تمام چیزیں سیاست سے لے کر معاشیات تک کا انتظام خالصتاً ایڈہاک طریقہ سے کیا جاتا ہے‘ مہم جوئی کا رجحان شروع سے ہی بحیثیت قوم ہماری جدوجہد کا خاصہ رہا ہے اپنے سیاسی اور معاشی نظام کی اصلاح کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے کے بجائے، ہم اندھیرے میں ٹال مٹول کر رہے ہیں‘پاکستان کو اپنے معاشی، سیاسی اور سماجی اشاریوں کو بہتر بنانے کیلئے مارشل پلان اور حالات کو بہتر بنانے کیلئے ایک محب وطن سماجی ہم آہنگی کی ضرورت ہے‘ اس سے یہ قوم اقوام عالم میں عزت کمائے گی‘معاشی پریشانیاں لامتناہی ہیں کیونکہ ان سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے‘ قرضوں کا انتظام ایک مشکل کام ہے، پاکستان کو موجودہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف سے مزید دو طرفہ اور کثیرالجہتی قرضے مل رہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے یا برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کیلئے کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نہیں ہے‘صنعت کاری ایک اور تشویش ہے، جسے ماضی میں حکومت کی جانب سے تمام تر کوششوں کے باوجود ترجیح نہیں دی جا سکی‘افراط زر کے اس دور میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے‘اگر ہم اپنے ملک کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اپنی پسماندگی کے ذمہ دار بے شمار عوامل ملیں گے‘ایک تو ہمارا سیاسی نظام ہے جو برسوں سے کئی تجربات اور بدانتظامی کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور اس قوم کی خدمت کرنے میں ناکام ہے‘ایسے ادوار بھی آئے جب ملک پر غیر سویلین حکومتوں نے حکمرانی کی، جس کے نتیجے میں ادارے کمزور ہوئے‘ہمارے معاشی نظام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، 22 اشرافیہ خاندانوں کے دورمیں بنگلہ دیش بنا‘اشرافیہ کی اس گرفت نے 1970ء کی دہائی میں سوشلسٹ نظریات کی راہ ہموار کی، جس کی وجہ سے 22 خاندانوں کی اجارہ داریوں کو توڑنے کیلئے بڑے کاروباروں اور صنعتوں کو قومیا لیا گیا‘  قومیانے کی پالیسی معیشت کیلئے تباہ کن دھچکا ثابت ہوئی بعد میں افغانستان سے عسکریت پسندی اور منشیات کے ذریعے معاشرے کے تانے بانے کو ہلا کر رکھ دیا گیا تھا‘ اقتصادی منتظمین نے غیر ملکی امداد کو معیشت کے لئے ایک اعزاز کے طور پر دیکھا‘ بیرونی امداد یا قرضوں پر مکمل انحصار کبھی بھی معیشت کو ترقی دینے کی حکمت عملی نہیں ہو سکتا لیکن ہمارے سیاسی اور معاشی منتظمین نے اسے ترقی کی حکمت عملی کے طور پر لیا، اور اب ہم اس غیر سوچے سمجھے منصوبے کے نتائج دیکھ رہے ہیں‘ پاکستان کو ایک سال تک ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا رہا‘اس قوم میں امید پیدا کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟ امیدیں وہ خواب ہیں جو صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں جب ایک مناسب ایکشن پلان پر عمل کیا جائے مسائل سے نمٹنے کیلئے ایک حتمی ایکشن پلان کی ضرورت ہے؛سب سے پہلے ہمیں ملک میں سیاسی استحکام کے مقصد کے حصول کیلئے انتخابات کرانے کی ضرورت ہے‘دوسرا معیشت کے میدان میں چیزوں کو درست کرنے کیلئے مارشل پلان کے حصے کے طور پر میثاق جمہوریت کی طرز پر ایک چارٹر آف اکانومی کی سخت ضرورت ہے‘ قرض کا انتظام سب سے اہم مسئلہ ہے اور اسے پہلے حل کیا جانا چاہیے۔