گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے آثار 

پاکستان میںجنوبی ایشیا کے قدیم مذاہب اور تہذیبوں کے آثار اور یادگاریں موجود ہیں، ان میں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ دھرم شامل ہیں، اور ان مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پاکستان ایک مقدس جگہ ہے، اگرچہ فی الحال سکھ مذہب کے پیروکار سال میں کم از کم تین بار اپنے مذہبی مقدس مقامات کی یاترا اور مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لئے پاکستان آتے ہیں، لیکن بدھ مت اور ہندو مت کے بھی متعدد مقدس مقامات پاکستان میں موجود ہیں، اگر سکھوں کے مقدس مقامات کی طرح ان کی بھی بحالی اور دنیا میں تعارف پر توجہ دی جائے تو ان مذاہب کے پیرو کار بھی ضرور باقاعدگی کے ساتھ یہاں آئیں، بالخصوص بدھ مت کے پیروکار وں کی دلچسپی کےلئے ہمارے ہاں گندھارا تہذیب و تمدن کی بے شمار نشانیاں اور آثار موجود ہیں جو ہندوستان ، سری لنکا،تھائی لینڈ، جاپان اور چین جیسے ممالک کی بدھ آبادی کےلئے دلچسپی اور روحانی آسودگی کا باعث ہیں، آج کے دور میں مذہبی سیاحت ایک اہم معاشی سرگرمی کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر پاکستان اپنے ہاں موجود ان مقامات کا دنیا میں درست تعارف اور ان تک رسائی کےلئے آسان پالیسیاں بنائے تو ہزاروں لوگ یہاں نہ آئیں گے، جہاں تک گندھارا تہذیب کا تعلق ہے تو گندھارا ایک قدیم ریاست تھی ،جو مشرقی افغانستان اور خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھوہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ پشاور، ٹیکسلا، بگرام، لغمان ، سوات ،دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے‘یہ دریائے کابل سے شمال کی طرف تھی‘گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی‘پاکستان بہت سی تہذیبوں کا مسکن رہا جن کے آثار اب بھی یہاں ملتے ہیں‘ خاص کر گندھارا تہذیب کے آثار بکثرت موجود ہیں۔یہ ایک قدیمی ریاست تھی جس کا ذکر وید اور بدھ مت کی کتابوں میں بھی ملتا ہے ‘موجودہ کے پی، پنجاب پوٹھوہار تک پھیلی ہوئی تھی‘230 قبل مسیح میں اشوکا یہاں آیا یہ ایک جدید تہذیب تھی جہاں پر خانقاہیں عبادت گاہیں تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز موجود تھے‘ یونانی ایرانی اور مقامی کلچر کے سنگم سے اس کا فن تعمیر وجود میں آیا گندھارا آرٹ کے تحت ملنے والے مجسمے اور برتنوں پر کندہ کاری سنگ تراشی میں اپنی مثال آپ ہے‘ گندھارا تہذیب کے چالیس مقامات پاکستان میں موجود ہیں جن میں اسلام آباد میں بین فقیراں سٹوپا موجود ہے وہ بدھ مت دور کے غاروں سے دو کلومیٹر دور ہے اور یہ اس طرز تعمیر پر قائم ہے جیسی تعمیر دوسری سے تیسری صدی میں ہوتی تھی۔ تاہم شاید ہی سیاحوں کو اس جگہ کے بارے میں پتہ ہو۔ اس کے ساتھ سپھولا سٹوپا جمرود، گور گٹھری کمپلیس پشاور، پشاور میوزیم، بدلپور سٹوپا ہری پور، جہان آباد بدھا سوات، سوات میوزیم، مانسہرہ راکس، بھاملا سٹوپا ہری پور، جولیاں سٹوپا ہری پور، شنگردار سٹوپا سوات، گہلی گیے راکس کارونگ سوات، بٹکارا ایک اور دو مینگورہ، بٹکارہ تھری مینگورہ، املوک درہ سوات، شہباز گڑھی راکس مردان، تخت بائی کے آثار مردان، رانی گھاٹ بونیر، جمال گڑھی مردان، غاروں کا شہر بیلا لسبیلہ، سری بہلول مردان، سدہیران جو داڑو ٹندو محمد خان، نیشل میوزیم کراچی، جوہی ٹاون سٹوپا دادو، بدھسٹ سٹوپا موہنجو داڑو، مینکالا سٹوپا، جندال ٹیپمل ٹکیسلا، جنان والی ڈھیری ٹیکسلا، پیپلاں سٹوپا، سرسخ سٹی ٹیکسلا، سرکپ سٹی ٹیکسلا، دھرمارجکا سٹوپا، منتھل راکس اسکردو، پھیر ماونڈ ٹیکسلا، کارگھا بدھا گلگت، تھل پان راکس کراونگ چلاس، شیتل راکس کارونگ شامل ہیں۔گندھارا تہذہب کی 19 نشانیاں کے پی میں، پانچ سندھ میں، ایک بلوچستان میں، دس پنجاب میں، چار گلگت میں اور ایک اسلام آباد میں ہے‘بہت سے سیاح دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے کے پی اور بلوچستان میں ان آثار کو دیکھنے سے گریز کرتے رہےتاہم اب امن و امان ہے اور وہاں بھی جایا جاسکتا ہے لیکن بہت سے آثار کے قریب اچھے قیام طعام کی سہولیات موجود نہیں اور بہت سے مقامات پر کوئی خاص انتظام بھی نہیں کہ سیاح اس جگہ کے بارے میں جان سکیں۔نہ ہی اس حوالے سے اب تک کوئی سروے کیا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے کن کن جگہوں کونقصان پہنچایا ہے۔ ان علاقوں میں بدھ مت تہذیب کے فن تعمیر، گوتم بدھ کے مجسمے، سٹوپا اور منظم شہری تہذیب موجود ہے لیکن مذہبی سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے۔