خوشحالی اور سبز انقلاب 

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز غذائی تحفظ کے موضوع پر قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1960 کے بعد دوسر سبز انقلاب لایا جارہا ہے، اور اس سے ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالیں گے ۔ ملک میں زرعی پیداوار کی صلاحیت اور اسکے مثبت نتائج کے حوالے سے وزیر اعظم کے نتائج فکر سے اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ اکیلا شعبہ کل افرادی قوت کے قریب 40 فیصد کو کام مہیا کرتا ہے جبکہ 25 کروڑ کے قریب آبادی کی خوراک کی ضرویارت کیلئے بھی اسی شعبہ پر انحصار ہے ۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل جیسے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے خام مال کا دارو مدار بھی زراعت پر ہے اور زراعت ہی کی بدولت ملک عزیز کو دنیا میں چوتھے سب سے بڑے چاول برآمد کنندہ ملک کا مرتبہ حاصل ہے۔ اسطرح گوشت اور دودھ کی پیداوار بھی زراعت سے متعلق ہے۔ ان جزیات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت کی ہماری معیشت اور قومی زندگی میں کیا اہمیت ہے، مگر اسکے مقابلے میں اس شعبے کو حاصل ہو نیوالی سر پرستی مایوس کن حد تک کم ہے۔ عصر حاضر میں زراعت سمیت کسی پیداواری شعبے کی ترقی اور کامیابی دستیاب سائنسی سہولتوں سے استفادہ میں مضمر ہے، مگر آج بھی ہمارا کسان قرون وسطی کے پیداواری طریقہ کار اور آلات پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ جدید زرعی مشینری تک رسائی یا اسے خریدنے کی استطاعت معدودے چند کا شتکاروں کو ہی حاصل ہے، اکثریت کو یہ سہولتیں کرائے پر حاصل کرنے کی طاقت بھی نہیں۔ کمرشل بینکوں کی توجہ سے زرعی شعبے کیلئے قرضہ جات تو دستیاب ہیں مگر مارکیٹ ریٹ پر اور سٹیٹ بینک کی نافذ کردہ بلند ترین شرح سود کے ساتھ کسی قرضے کا کاروباری مقاصد کیلئے قابل عمل ہونا مشکل ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک کی زراعت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں بھی غیر معمولی چیلنجز در پیش ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس کے سیلابوں کو دیکھ لیجئے ۔ ان سیلابوں سے ہونے والے کل نقصان کا نصف کے قریب زرعی شعبے کا تھا۔ جو کاشتکار قرض لے کر فصل کاشت کرتا ہے اور خدانخواستہ وہ فصل بارشوں ژالہ باری یا دوسری انتہائی صورت میں خشک سالی کا نشانہ بن کر برباد ہو جائے تو اس متاثرہ کاشتکار کیلئے عمر بھر معاشی طور پر کمر سیدھی کرنا ممکن نہیں رہتا۔ دوسری جانب ہمارے کاشت کار کو جدید کاشتکاری کے علمی اور تربیتی مواقع بھی میسر نہیں، نتیجتاً پیداواری صلاحیتوں میں ترقی یافتہ ممالک کا کیا ذکر، ہم تو اس خطے کے اکثر ممالک کے ہم پلہ بھی نہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں جو نہری نظام ہے اسے دنیا کا بہترین نظام مانا جاتا ہے زیر زمین پانی بھی حسب ضرورت دستیاب رہتا ہے اور سال کے چار موسم ہر طرح کی فصلیں کاشت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، مگر ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت تشویشناک حد تک کم ہے۔ اور یہ جان کر تشویش دو چند ہو جاتی ہے کہ اسوقت ہماری خوراک کی درآمدات توانائی کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ ایک زرعی ملک، جسے قدرت نے ہر طرح کے پیداواری و سائل عطا کر رکھے ہیں، اگر سال میں آٹھ دس ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہو تو تشویش جائز ہے۔ ضروری ہے کہ حکمران بھی اس زاویے سے صورتحال کو دیکھیں اور ملک میں زرعی ترقی کے دعوﺅں کو حقیقت بنا کر دم لیں۔ اس سلسلے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی دلچسپی قابل تحسین اور باعث امید ہے۔ یہ کوششیں جاری رہیں تو بہت جلد ہمارا ملک اس منزل تک پہنچ سکتا ہے جسے زرعی انقلاب کہتے ہیں۔ 60 کی دہائی میں پاکستان یہ معرکہ سر کر چکا ہے جب گندم اور دیگر فصلوں کی کا شتکاری کیلئے جدید وسائل متعارف کروائے گئے ۔ آج پھر ہم اسی دوراہے پر ہیں ترقی کا سفر زرعی شعبے کی ترقی کا متقاضی ہے کہ یہ شعبہ متعدد شعبوں کو قوت متحرکہ فراہم کر سکتا ہے۔