بوچھار درختوں میں بہت شور مچائے، دھندلا نظر آئے 

دیکھتے ہی دیکھتے وقت کیسا بدل گیا اور اب ہم فون کئے بغیر قریبی رشتہ داروں اور بے تکلف دوستوں کے ہاں بھی نہیں جاسکتے ، ہر دور اپنے تقاضوں کا قیدی ہوتا ہے اور ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں گزشتہ کل کی طرح بے تکلفی سے کہیں آنا جانا تو خیر کب کا ختم ہو چکا بلکہ اب تو ٹیلی فون کے بھی آداب متعین ہو چکے ہیں ،یعنی کسی کو فون کرنے سے پہلے اب ٹیکسٹ میسیج یا وائس نوٹ پر پہلے پوچھنا پڑتا ہے کہ ” حضور اگر آپ فری ہوں تو میں کال کروں “ اور یہ سب اجنبی لوگوں کے لئے نہیں بلکہ روز کے ملنے والے دوستوں اور دل کے قریب رشتہ داروں میں بھی ہوتا ہے، میری پوتی عمارہ اریبہ ہر ویک اینڈ پر دادی سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ پوچھتی ہے ” دادی کیا ہم آپ کو ویڈیو کال کر سکتی ہیں “ ہمارے ہاں تو ان باتوں کا خیال رکھنے کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن باہر کی دنیا میں تو ایک زمانہ سے ان آداب کا چلن عام ہے میں نے پہلی بار 70 کی دہائی کے اوائل میں وفاقی وزارت اطلاعات کے ماہنامہ ” ماہ ِ نو “ میں ایک انگریزی نظم کا اردو ترجمہ پڑھا تھا، جس کا مفہوم یہی تھا کہ جب کسی دوست سے ملنے جاو¿ تو ملاقات کو خوشگوار بنانے کے لئے پہلے فون پر ا سے ا طلاع ضرور کر دو اور اس زمانے میں مجھے یہ نہایت عجیب لگا تھا کہ کسی دوست کے ہاں جانے کے لئے اسے پہلے سے بتانے کی بھلا کیا ضرورت ہے، لیکن اب گزرتے وقت نے ہمیں بھی اسی سانچے میں ڈھال دیا ہے، اس تمہید کی ضرورت مجھے یوں پیش آئی کہ گزشتہ روز ہم ایک دوست کے ہمراہ بن بلائے اور بنا بتائے ایک ایسے صاحب کے گھر پہنچ گئے جن سے میرا پہلے سے کوئی تعارف یا ملاقات نہیں تھی، یہ اس شام کی بات ہے جس دن صبح ہم بریڈ فورڈ سے لیڈز کے قرب و جوار میں ایک پارک کے لئے گھر سے نکلے تھے،اس وقت اچھی خاصی چمکیلی دھوپ پھیلی ہو ئی تھی مگر جلد ہی اطراف سے اٹھنے والی کالی گھٹاو¿ں نے پہلے سورج کا گھیراو¿ کیا اور پھر دل کھول کر برسنا شروع کر دیا، اس لئے ہمیں پروگرام میں تبدیلی کرنا پڑی اور راستہ بھی بدلنا پڑا یوں تو بارش میں ان سڑکوں پر ڈرائیونگ کا لطف اپنی جگہ لیکن کسی پارک نہیں جایا جاسکتا اس لئے ہم نے لیڈز کے ایک ” مال“ کا رخ کیا ،شاپنگ مال کی بھی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے‘ مانو پورا ایک شہر ایک چھت کے نیچے آباد ہوتا ہے اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں، بلکہ
 امریکہ میں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی چالیس پچاس درجے نیچے چلا جاتا ہے اور روزانہ ’ واک‘ کے عادی لوگ موسم کے مہربان نہ ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے ’ واک ‘نہیں کر پاتے تو وہ کسی بڑے مال میں چلے جاتے ہیں اور گھنٹوں واک کرتے رہتے ہیں، لیڈز کا مال بھی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا شاپنگ کرنے والے بھی بہت تھے مگر ہماری طرح باہر کی موسلا دھار بارش سے پناہ لینے اور چند گھنٹے ونڈو شاپنگ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی، خواتین کی تعداد بہر حال بہت زیادہ تھی اور بچے بھی یہاں وہاں بھاگتے پھر رہے تھے ان شاپنگ مال میں ان کے لئے پلے ایریا بھی کئی ایک تھے، پھر جگہ جگہ آرام دہ صوفے اور ان گنت بنچ بھی پڑے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ ان پر زیادہ عمر کی بزرگ خواتین و حضرات بیٹھے ہوئے یقینا وہ تیزی سے یہاں وہاں گھومتے پھرتے لوگوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے یہی سوچ رہے ہوںگے، 
 اب تو دو چار قدم چلتے ہیں تھک جاتے ہیں
 زندگی تجھ سے بھی رفتار زیادہ تھی کبھی
ہم مال آئے تو اس لئے تھے کہ موسلا دھار بارش کے باعث پارک نہیں جایا جاسکتا تھا لیکن خواتین اس موقع کو بھی غنیمت جانتے ہوئے خواہی نخواہی کچھ شاپنگ بھی کر لیتی ہیں، اور ” چلئے ذرا دیکھ لیتے ہیں “ کہہ کر کسی بھی ’ آرکیڈ ‘ میں گھس جاتی ہیں اور واپسی پر ان کے ہاتھوں میں کئی پیکٹ ہوتے ہیں اور پوچھنے پر ہمیشہ کلیشے کی طرح کا ڈائیلاگ بولتی ہیں،” بہت اچھا تھا اور سستا تھا اس لئے اٹھا لیا “ اس لئے جب بچے کپڑوں کے ایک آرکیڈ جانے لگے تو میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا میں ایسا بہت کم کرتا ہوں مجھے گھومنا پھرنا زیادہ اچھا لگتا ہے لیکن اس ہنگامہ کا حصہ بننے کی بجائے اسے دیکھنا زیادہ اچھا لگ رہا تھا، انگلینڈ میں سفر کے دوران کسی گاو¿ں سے گزرتے ہوئے اکثر سڑک کے کنارے کسی کیفے یا سائیڈ پر پڑے ہوئے بنچوں پر اکثر عمر رسیدہ لوگ بیٹھے نظر آتے ہیں تو زندگی کی شام کا منظر دیر تک آنکھوں میں
 دھواں بھرتا رہتا ہے یا پھر میر انیس یاد آجاتے ہیں
 انیس یوں ہوا حال ِ جوانی و پیری 
 بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
مال سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی اور دھوپ اپنا چہرہ دکھانے میں کامیاب ہو چکی تھی، بھوک بھی چمک اٹھی تھی سو ایک ترکی ریستوران میں ظہرانہ کے بعد سوچا کہ کدھر جایا جائے توابتسام کو میرے عزیز سٹوڈنٹ امجد علی سیماب کی کال آگئی، ہم اسی کی تجویز پر پارک جانے کے لئے گھر سے نکلے تھے، مگر پھرموسم ہمارے پروگرام ترتیب دینے لگا تھا سیماب نے ایک اورقریبی پارک کا رخ کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ میں بھی وہیں پہنچ رہا ہوں،جلدہی وہ بھی آئس کریم لے کر آگیا بہت ہی بڑا پارک تھا جس کی جھیل تک جانے کے لئے ہمیں گاڑی میں بیٹھ کر گھوم کے آنا پڑا اور پھر شفاف نیلگوں پانی میں تیرتے آبی پرندوں کے دلکش نظاروں نے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا، پارک میں دبے پاو¿ں جب شام اترنے لگی تو ہم اٹھ آئے ‘چائے کی طلب تو کسی طور نہیں تھی مگر سیماب نے کسی چائے خانے کی چائے کا وہ نقشہ کھینچا کہ حامی بھر لی مگر جب بازار کی طرف آئے تو وہ چائے خانہ بند تھا،عجیب بات ہے کہ کسی گاو¿ں کی بزریا کی طرح پورے انگلینڈ میں کم و بیش ساری دکانیں اور مال سات بجے سے پہلے بند ہو جاتے ہیں، کچھ کچھ ریستوران وغیرہ رات دس سے گیارہ تک کھلے رہتے ہیں مگر گیارہ بجے زیادہ دیر نہیں ہوتی سورج نو بجے تک راج کرتا ہے مغرب کی نماز ساڑھے نو بجے کے بعد ہوتی ہے سیماب بضد تھے کہ چائے تو پینا ہے،ایک دوست کو کال کی مگر اس نے اٹینڈ نہیں کی تو کہنے لگا شاید سو گیا ہو گا لیکن کوئی بات نہیں ہم بنا بتائے ہی جاتے ہیں ،مجھے یقین نہیں آیا مگر اسے یقین تھا کہ وہ برا نہیں مانے گا اور یوں ہم پانچ لوگ لیڈز میں مقیم سیماب کے پا کستانی دوست آصف شیخ کے ہاں پہنچ گئے، یہ اور بات کہ آصف شیخ نے بہت پر تپاک استقبال کیا، اور دیر تک ہماری یہ نشست جاری رہی،باہر پھربارش شروع ہو چکی تھی بادلوں کے گرجنے کی تیز آوازیں وقفے وقفے سے آرہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ برطانیہ کے اس شما لی حصے کے گزارے ایک دن میں ہم نے صبح سے شام تک کتنے ہی موسم دیکھ لئے درختوں سے گھری ہوئی سڑکوںپر موسلا دھار بارش میں روانہ ہوئے تو سجاد بابر یاد آگئے۔
 بوچھار درختوں میں بہت شور مچائے دھندلا نظر آئے
 ہلکان ہوں بھیگے ہو ئے ڈر برف گری ہو اور شام ِ مری ہو