بلوچستان کے علاقے ژوب میں گزشتہ روز دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانا پاک فوج کے جوانوں کی مستعدی، پیشہ ورانہ قابلیت اور دفاع وطن کے عزم مصمم کی دلیل ہے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا جتھا علی الصبح ژوب کینٹ میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ان کا مقابلہ کیا اور انہیں ختم کیا۔ رواں سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ سکیورٹی امور کے ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے نصف میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے کے دوران ملک میں دہشت گردی کے کل 271 واقعات ہوئے، جن میں 389 اموات ہوئیں‘2022 کے اس دورانیے میں میں دہشت گردی کے 151 واقعات ہوئے، جن میں 293 افراد جاں بحق ہوئے۔ خیبر پختونخوا اس سال بھی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا، جہاں پہلے چھ ماہ کے دوران 174 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 266 اموات ہوئیں اور 463 افراد زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں سے 100 خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں ہوئے، جن میں 188 افراد جاں بحق اور 354 زخمی ہوئے، جبکہ دہشت گردی کے 74 واقعات قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں پیش آئے، جن میں 78 افراد مارے گئے۔ 2022 کے پہلے نصف کے مقابلے میں رواں سال خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں 51 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے 75 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 100 افراد جاں بحق اور 163 زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 103 فیصد اور جانی نقصان میں 61 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سال پنجاب میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات میں چھ اموات ہوئیں، گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں یہاں دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ دہشت گردی کے حوالے سے رواں سال کے پہلے نصف میں سندھ میں 13 واقعات میں 19 اموات ہوئیں، جو گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کی نسبت 19 فیصد کم ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے اس شماریاتی جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں پر مرکوز ہیں اور ان خطرات کی نوعیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کیلئے سکیورٹی کے ان خدشات کا تعلق افغانستان کے داخلی انتشار اور ریاستی عدم استحکام سے ہے۔ قریب ڈھائی ہزار کلومیٹر پر پھیلی پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی دراندازی کو روکنا بلاشبہ غیر معمولی چیلنج ہے۔ افواج پاکستان کی کوششوں اور نگرانی کے نسبتاً بہتر اقدامات کی بدولت عسکریت پسندوں کی سرحد پار آنے جانے کی صلاحیت میں وقت کیساتھ کمی آئی ہے مگر دراندازی کو مکمل روکنے کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے یہ مغربی علاقے جو شدت پسندی کے خطرات سے بطور خاص متاثر ہیں، ملک کے معاشی مستقبل کے اہم سنگ میل بھی ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل پاکستان کی پائیدار ترقی کی ضمانت ہیں؛ چنانچہ ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے ان حالات میں پاکستان اپنے تحفظ کیلئے جو کچھ کر رہا ہے اس سے زیادہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بہر حال دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک کے سکیورٹی اداروں کی کوششیں یقینا قابل تحسین ہیں کہ پچھلے چند برس کے دوران ملکی سلامتی کو در پیش سنگین نوعیت کے خطرات کا تدارک کیا گیا ہے۔