ہمارے مسائل کا حل ، جمہوریت کا تسلسل۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے بعد کہ اگلے ماہ حکومت اپنی مدت پوری ہونے پر چلی جائے گی اور نگران حکومت آ جائے گی، ملک کا سیاسی منظر نامہ بڑی حد تک واضح ہو جاتا ہے مگر نگران حکومتوں کی تشکیل اور عام انتخابات تک ابھی بہت مرحلے باقی ہیں ہمارے ہاں ایسی امکانی صورتوں کی کمی نہیں جو کسی بھی مرحلے میں واقعات کا رخ موڑنے اور توقع کے برعکس نتائج پیدا کر دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ بہر کیف ملکی مفاد اسی میں ہے کہ جمہوری عمل جاری ہے۔ خود سیاسی جماعتوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے تاکہ وہ نظام رواں دواں رہے جو ان جماعتوں کے وجود کا جواز فراہم کرتا ہے۔ بادی النظر میں سیاسی جماعتوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جمہوری سلسلے میں رکاوٹوں کے اثرات طویل مدتی اور منفی ہوتے ہیں ؛ لہٰذا امید کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے جمہوری عمل کو آئینی شرائط و قواعد کے مطابق آگے بڑھنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ فی الواقع ملک میں انتخابی عمل کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ معاشی صورتحال جو کچھ پہلے واقعتا باعث تشویش تھی اب بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہے اگر چہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے اثرات اپنا اثر دکھا رہے ہیں مگر ڈیفالٹ کے خطرے کے بادلوں کا چھٹ جانا اور کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری ملکی معیشت کیلئے خوشگوار ماحول کو ظاہر کرتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ معیشت دوبارہ پٹڑی پر چڑھنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار ہونے اور اس سے جڑے معاشی مواقع حاصل ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ عمل جس کی بنیاد اس وقت رکھی گئی ہے، انتخابات اور نئی حکومت کا قیام اس کو تقویت فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔ جہاں تک امن و امان کی بات ہے تو دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کی وجہ سے تشویش ضرور ہے مگر ملکی دفاعی نظام کی استعداد اور صلاحیت اس قدر ہے کہ یہ خطرات پاکستان کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اس وقت بظاہر سیاسی جماعتوں میں بھی کوئی ایسی نہیں جو انتخابات کے التوا میں دلچسپی رکھتی ہو۔ قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کے انعقاد میں جو ایک ماہ اضافی ملتا ہے اگر کوئی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھتا ہو تو یہ الگ بات ہے مگر انتخابات سے انحراف کی خواہش واضح طور پر کہیں نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اگر کسی حکومتی رہنما کی جانب سے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا بھی گیا تو اتحاد کے اندر ہی سے اس کی تردید بھی فی الفور آگئی اور یہ واضح کر دیا گیا کہ انتخابات کے بروقت انعقاد میں دو رائے نہیں۔ اسے سیاسی جماعتوں کی بلوغت کی دلیل کہنا چاہئے اور یہ ہمارے جمہوری نظام میں ایک خوشگوار تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کی باقاعدگی کے آئینی تقاضے کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حالیہ چند برس کے دوران ملک کے جمہوری منظرنامے اور سوچ میں جو قابل ذکر تبدیلیاں آئی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے۔ اس طرح ملک میں جمہوری استحکام کی امید پیدا ہوتی ہے جس سے حکومتی نظام کی جامع اصلاح کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت جب اسمبلیاں اپنی مدت تکمیل کے قریب ہیں، ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی جمہوری اور حکومتی کار کردگی کا محاسبہ بھی کریں۔ بہر حال حکومت کو اس کی ان کوششوں کا کریڈٹ ضرور دینا چاہئے جو اس نے معیشت کو سنبھالنے کیلئے کی ہیں۔ ملک میں جمہوری تسلسل ہو تو معیشت کا استحکام اب بھی ممکن ہے۔