الیکشن کمیشن کے اعلان، کہ "اسمبلیاں وقت پر تحلیل ہوں یا قبل از وقت الیکشن کےلئے تیار ہیں" سے سیاسی منظر نامے پر چھائی گرد بیٹھتی نظر آتی ہے۔ جمعرات کو سیکرٹری الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں صراحت کے ساتھ اس امر کی وضاحت کی گئی کہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے اور اگر مدت مکمل کر کے اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو 12 اکتوبر تک آئندہ عام انتخابات ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ بھی باور کرایا گیا کہ حلقہ بندیاں مکمل ہیں، واٹر مارک بیلٹ پیپر حاصل کر لیے گئے ہیں انتخابی حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تیاریاں مکمل ہیں ؛ تاہم اگر نئی مردم شماری کی منظوری دی جاتی ہے تو نئی حلقہ بندیوں کے لیے چار سے ساڑھے چار ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ دریں اثنا اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے لیے 42.5 ارب روپے میں سے پہلی قسط کے طور پر 10 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے، جس سے انتخابی مستقبل کے خدوخال واضح ہو جاتے ہیں۔موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگست کے دوسرے عشرے میں ختم ہورہی ہے جبکہ حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی اسمبلیاں تحلیل کر دے گی اور اس حوالے سے سر دست آئندہ عام انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کے سر براہ اور کا بینہ کے ارکان کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہو گا۔ لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں اس وقت اتحادیوں اور سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف نظر آتی ہیں جبکہ حکمران اتحاد کی باہمی ملاقاتیں بھی جاری ہیں اور حکومت نگران انتظامیہ سے متعلق معاملات پر اتفاق رائے کی خواہشمند ہے۔ انتخابی ماحول سے معاشی جمودٹوٹنے اور قیاس آرائیوں اور افواہوں کی حوصلہ شکنی کی امید بھی کی جاسکتی ہے جبکہ انتخابات کے نتیجے میں طویل مدت سے جاری سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے گا جو معاشی ارتعاش کا بھی بنیادی محرک ہے۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے وفاق اور صوبوں میں پانچ سال کی آئینی مدت کیلئے تازہ عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومتوں کا قیام معیشت کو بھی اعتماد بخشے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے عبوری ریلیف کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر جلد از جلد انتخابات کرا کے اقتدار دوبارہ عوامی نمائندوں کو سونپ دیا جائے جو تازہ مینڈیٹ کے ساتھ ملکی انتظام و انصرام کو بہتر طور پر سنبھال سکیں جبکہ جمہوری روایات کے تسلسل کی خاطر بھی لازم ہے کہ انتخابی عمل میں کوئی رخنہ نہ ڈالا جائے اور معاملات کو ہموار انداز میں آگے بڑھنے میں بھر پور معاونت کی جائے۔ ایک منتخب اسمبلی کا اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد جمہوری انداز سے اقتدار دوسری منتخب اسمبلی کو سپرد کرنا یقینا خوش آئند ہے مگر محض جمہوری روایت کا تسلسل ہی کافی نہیں ہے اگر اس عمل میں خود احتسابی کو فوقیت نہ دی جائے۔ آئین و قانون کی بالا دستی اور جمہوری روایت کے فروغ میں منتخب ایوانوں نے کتنا کردار ادا کیا، عوامی فلاح کے کاموں کو کس قدر فوقیت دی انتخابی نعروں اور منشور پر کس حد تک عمل کیا اور یہ کہ اب ملک و معیشت پہلے سے بہتر مقام پر کھڑے ہیں یا نہیں، منتخب اسمبلیوں کی مدت میعاد مکمل ہونے پر ان سوالات پر بھی کچھ غور و تدبر کرنا چاہئے۔ ہر وہ عمل جو احتساب سے ماورا ہو بالآخر زوال پذیر ہو جاتا ہے لہٰذا جمہوری تسلسل کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی فکر بھی دامن گیر رہنی چاہئے گو کہ الیکشن میں عوام اپنے ووٹوں کی طاقت سے خود بھی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں مگر منتخب عوامی نمائندوں کو بھی اپنے عمل سے اپنے انتخاب کا جواز فراہم کرنا چاہئے۔بہرحال اس وقت حالات جس سمت جا رہے ہیں وہ مثبت اور حوصلہ افزاءہیں کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ملکی معیشت مستحکم ہونے لگی ہے اور مشکلات کا دور ختم ہونے والا ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی استحکام کے بھی اشارے مل رہے ہیں جس سے یقینی طور پر معاشی معاملات زیادہ موثر انداز میں نمٹائے جا سکیں گے اور یہی وہ عناصر ہیں جو ملکی خوشحالی اور ترقی کے سفر کو یقینی بنا سکتے ہیں۔