پشاور میں آبدرہ روڈ پر واقع پیر مبارک شاہ ؓ کے عرس کے موقع پر کچھ عرصہ پہلے تک ہر سال معروف قوال عزیز میاں قوال بہت عقیدت سے حاضر ہوا کرتے تھے، دوست عزیز اسداللہ خان لودھی ساری رات جاری رہنے والی اپنے مرشد کی سلانہ محفل ِسماع کا اہتمام پوری عقیدت سے بڑے پیمانے پر کیا کرتے ہیں اس سالانہ عرس کی فجر تک جاری رہنے والی محفل سماع میں عقیدتمندوں کی ایک بڑی تعدادشریک رہتی، عزیز میاں قوال کا قوالی کا اپنا ایک منفرد انداز تھا پھروہ عارفانہ کلام کا انتخاب بھی خوب کیا کرتے تھے،مجھے عزیز میاں کی ان محافل کی نظامت کا اعزاز حاصل رہا ہے، اسد اللہ خان لودھی سے میرا تعارف دوست عزیز ڈاکٹر اسماعیل قمر کے توسط سے ہوا اور پھر ان کی وساطت سے عزیز میاں قوال سے اس حد تک دوستی ہو گئی تھی کہ ایک بار مجھے جلد گھر لوٹنا تھا اس لئے محفل کا آغاز کر کے اور عزیز میاں قوال کو دعوت دینے کے کوئی گھنٹہ بھر بعد اس بھری محفل سے چپکے سے نکل رہا تھا کہ عزیز میاں نے قوالی روک لی۔اور پوچھنے لگے ”میاں صاحب کہاں جا رہے ہیں“ میں نے کہا،ایک مصروفیت ہے اسد اللہ خان لودھی کو علم ہے کہنے لگے، میاں صاحب،ٹھیک ہے آپ جائیں اور میں بھی یہیں پر قوالی ختم کردیتا ہوں،“ اور باقاعدہ اٹھ گئے،عزیز میاں تو ایک طرف، پوری محفل ہی ان کی طرفدار ہو گئی تھی سو مجھے پھر فجر تک رکنا پڑا،محفل سماع سے پہلے عشائیہ پر ان سے خوب گپ شپ ہوا کرتی بہت پڑھے لکھے اور بلا کے شگفتہ مزاج شخصیت کے مالک تھے،انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی اور اردو ادبیات میں ماسٹر کیا ہوا تھا لیکن ان کا گفتگو میں انداز فلسفیانہ ہوتا، میں انہیں کہتا کہ بچپن میں اسماعیل میرٹھی کی نظموں سے لطف لیتے تھے پھر آپ کی قوالی نے اسیر بنالیا تو قہقہہ لگا کر ترنت جواب دیتے آپ میرٹھ والوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں، مجھے علم تھا کہ عزیز میاں بھی میرٹھ کے رہنے والے ہیں بلکہ شاید ابتدا میں انہوں نے عزیز میرٹھی کے نام سے قوالی کی دنیا میں خود کو متعارف کروایا یہ ”میاں“ کا لفظ تو ان کا تکیہ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام کا حصّہ بن گیا اور وہ عزیز میرٹھی سے عزیز میاں بن کر چھا گئے ان کی آواز میں ایک کھنک تو تھی مگر اس میں ایک رعب اور گھمبیرتا بھی تھی، پھر ان کی گائیکی کا وہ انداز ان کے پرستاروں کوبہت بھاتا تھا جب وہ گاتے گاتے جذبات میں گھٹنوں کے بل کھڑے ہو جاتے، اور یوں محفل میں ہر شخص جھوم جھوم جاتا،
وہ خود بھی شاعر تھے اور اپنابہت سا کلام وہ قوالی کے دوران پڑھتے تھے، انہوں نے غزلیں بھی اپنی ہی گائیکی کے انداز میں گائی ہیں، پشاور میں وہ احمد فراز کی غزل ضرور سنایا کرتے تھے (اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں) آخری بار جب وہ پشاور آئے تھے تو کہنے لگے کہ ایران سے دعوت آئی ہے اور جلد میں ایران چلا جاؤں گا اور غالباََ یہی ان کا ایران کا آخری سفر تھا، کیونکہ وہیں انہوں نے آخری سانسیں لیں۔ عزیز میاں قوال کے حوالے سے اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ابھی چند دن پہلے بہت سنے جانے والے بریڈفورڈ ایشین ریڈیو کے مقبول اور بہت ہی باذوق جواں سال و جواں فکر آر جے حسن شاہ جی ملنے کے لئے گھر آئے ہوئے تھے، دو گھنٹے سے طویل نشست ہوئی، پاکستان اور برطانیہ میں کار ادب کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے حوالے سے بھی بہت بات ہوئی، پشاور ریڈیو کے حوالے سے ناخوشگوار واقعہ کا بھی انہیں بہت افسوس تھا،انہوں نے اپنے شام کے گیتوں بھرے ریڈیو ادبی شو ”رنگ ِ محفل“ میں بھی کسی دن آنے کی دعوت بھی دی، جو رات نو بجے سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے میں نے کہا کہ نائن الیون کا ساؤنڈ تو زیادہ اچھا نہیں ہے مگر میں ضرور آؤں گا، انہوں نے ابتسام اور ثمرین کو بھی ریڈیو جوائن کرنے کا مشورہ دیا، حسن شاہ جی پہلی ملاقات میں ہی بہت اپنے اپنے سے لگے،آواز کی دنیا کی دوستی ایسی ہی ہوتی ہے،وہ بتا رہے تھے کہ یہاں کی مصروف دنیا میں لوگ ریڈیو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ آر جیز (صداکاروں) کوبہت محبت دیتے ہیں بلکہ ان کے پرستار تو نجی تقریبات میں بلانے سے لے کر تحائف دینے کی حدتک ان سے رابطہ بحال رکھتے ہیں مجھے 90 کی دہائی کے اواخر کا زمانہ یاد آ گیا جب سید رحمن شینو اور نوشابہ بی بی کے ساتھ میں پشاور ریڈیو سے تین طویل گھنٹوں کا لائیو شو ”میوزک چینل ہنڈرڈ“ کیا کرتا تھا اور ہمیں بھی ہمارے سننے والوں کی طرف سے کئی تحائف اور پکوان ملتے تھے بلکہ شو کے دوران ہی گیٹ پر مزے مزے کی ڈشز چھوڑ
جایا کرتے تھے، لا ئیو کالز بھی آتی تھیں،جو ہم سٹوڈیوز میں تو نہیں لے سکتے تھے کیونکہ اس وقت ٹیکنالوجی آج ی طرح نہیں تھی اس لئے ڈیوٹی روم میں ایک دوست کالزپر ہوتے اور وہ پیغام لے کر اور لکھ کر ہم تک پہنچاتے رہتے تھے، جب کہ خطوط کے تو واقعی تھیلے بھرے آتے اور ہم ان کے جواب آن لائن دیتے تھے عجب سرشاری کے دن تھے اب بھی یاد آتے ہیں تو حلق نمکین ہوجاتا ہے بہت دنوں بعد ان دنوں کو یاد کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا، حسن شاہ جی نے جاتے جاتے پوری فیملی کو دو دن بعد ہونے والی قوالی نائٹ کی دعوت بھی دے دی جو بریڈفورڈ میں ہو رہی تھی، ظاہر ہے فوراََ حامی بھر لی، کہنے لگے آپ بروقت آ جائیے گا میں نے ٹکٹ لے رکھے ہوں گے، بہت کہا کہ ہم ٹکٹ لے لیں گے مگر وہ نہیں مانے، یہاں بیشتر مشاعرے بھی امریکہ کی طرح ٹکٹ پر ہوتے ہیں، قوالی نائٹ میں عمران عزیز قوال نے پرفارم کرنا تھا۔ ہال بھرا ہوا تھا اور پھر عمران عزیز قوال اپنے ساتھیوں سمیت سٹیج پر آئے بہت پرتپاک استقبال ہوا، اور ان کی قوالی کے آغاز ہی نے مجھے عزیز میاں کے ساتھ گزارے ہوئے سارے لمحات یاد دلا دئے۔ عمران عزیز جو عزیز میاں قوال کا بہت ہی گنی صاحب زادہ ہے اور قوالی میں وہ اپنے لیجنڈ والد کے انداز کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اس کی آواز اور انداز ہو بہو اپنے والد کا سا ہے اور قوالی میں بھی حمد و نعت اور منقبت پڑھتے وقت عزیز میاں ہی یاد آتے ہیں، خصوصاََ جب انہوں نے عزیز میاں قوال کی معروف قوالی ”نبیؐ نبیؐ،یا نبیؐ“ چھیڑی تو پورا ہال وجد میں آ گیا، بہت ہی روحانی محفل تھی مجھے پہلی بار عمران عزیز میاں کو سننے کا موقع ملا، ملاقات تو نہیں ہو سکی مگر والد کی طرح ان کی شگفتہ مزاجی کا بھی اس وقت میں قائل ہو گیا جب کسی خاتون نے ایک کاغذ پر اپنی فرمائش لکھ کر دی تو عمران عزیز نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھا اورکہا ’ا وہ ہو یہ تو فرمائش ہے میں سمجھا شاید مجھے ’بلینک چیک دے دیا ہے جس سے پورا ہال زعفران زار بن گیا، لیکن سچی بات یہی ہے وہ ایک یادگار شو تھا جس نے بہت دیر تک اپنی گرفت میں رکھا، اور شو کے اختتام پر میں نے پاکستان کے کچھ نجی چینلز کے لئے اپنے تاثرات ریکارڈ کراتے ہوئے یہی کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران میرا برطانیہ کا سارا ادبی دورہ ایک طرف اور آج کی یہ روحانی محفل ایک طرف رہی۔ ورون آنند نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
ساری دنیا جو بھی بولے سب کچھ شور شرابا ہے
سب کا کہنا ایک طرف ہے اس کا کہنا ایک طرف