گزشتہ روز دماغی صحت کا عالمی دن منایا گیا، جگہ جگہ تقاریب کاانعقاد کیا گیا تاہم یہ دن گزرنے کے بعد کیاہمارے رویوں میں دماغی امراض کے شکار افراد کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ دماغی امراض کے شکار افراد کے ساتھ ہمارا رویہ ہمدردانہ نہیں ہوتا۔انسانی دماغ ایک ایسا اہم اور حیرت انگیز عضو ہے جو ہمارے خیالات، جذبات اور حرکات کو کنٹرول کرتا ہے اور ہماری شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔ ایک صحت مند دماغ جہاں ہمیں زندگی میں سیکھنے، آگے بڑھنے اور چیلنجز پر قابو پانے کے قابل بناتا ہے وہیں اسے درپیش کوئی معذوری انسان کی زندگی کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔ ان معذوریوں کا شکار افراد کو معاشرے کا فعال حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دماغی امراض اور معذوریوں کے حوالے سے آگاہی عام کی جائے۔ رواں سال منائے جانے والے عالمی یومِ دماغ کا عنوان دماغی صحت اور معذوری: کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں قرار دیاگیا ہے۔یہ عنوان ایک عالمی اقدام کے تناظر میں اختیار کیا گیا ہے جس میں معذور افراد کے لئے حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، اس کے حوالے سے تعلیم اور آگاہی کے خلا کو ختم کرنا اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کو بہتر کرنا شامل ہے کیونکہ جب دماغی صحت کی بات آتی ہے تو ہم کسی کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔معذور افراد کے حوالے سے مسائل و مشکلات کا ایک انبار موجود ہے، اس سال عالمی یومِ دماغ کے عنوان کا انتخاب پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی و اعصابی امراض کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کے شکار افراد کی بڑی تعداد کی طرف توجہ دلانے اور ان کے لیے صحت کے نظام میں بہتری کی ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔دماغی معذوری ہر عمر، نسل، جنس اور سماجی و اقتصادی حیثیت کے فرد کو متاثر کرسکتی ہے۔ دماغ کے عالمی دن کے موقع پر اس کی آگاہی اور علاج تک رسائی کو بہتر بنانے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان معذوریوں کا علاج اور بحالی کی سہولیات میسر ہیں، امید و آگہی سے متاثرہ افراد کی زندگیوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔امتیازی سلوک پر مبنی رویوں کے ساتھ ساتھ ضروری دیکھ بھال اور معذوری سے بحالی کی خدمات تک رسائی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ان افراد کے لیے پیشہ ورانہ دیکھ بھال، علاج، بحالی اور معاون ٹیکنالوجی تک رسائی بہت ضروری ہے اور یہ تعلیم و آگہی سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ڈبلیو ایف این اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد تقریبا ًایک ارب 30 کروڑ ہے، ان میں سے تقریبا ً9 کروڑ 30 لاکھ بچے ہیں۔ پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں معذور افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے تقابلی جائزے کو دیکھیں تو عالمی سطح پر 10فیصدکے مقابلے میں ہمارے ہاں کل معذور آبادی کا 43 فیصد بچے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 14 لاکھ بچے سکول جانے کی عمر کے ہیں لیکن انہیں تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ پاکستان میں دستیاب اعداد کے مطابق تقریباً 65 فیصد معذوروں کا تعلق دیہی جبکہ 34 فیصد کا شہری آبادی سے ہے۔ ان میں مردوں کی اکثریت 58 فیصد جبکہ خواتین کا حصہ 42 فیصد ہے۔دماغی صحت کا تصور اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے اور عالمی ادارہ صحت بھی اس کو قبول کررہا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی نے اسے ایک عالمی آگاہی مہم کی شکل دی ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر دماغی امراض سے متعلق آگہی کو فروغ دینا ہے تاکہ دماغی معذوری اور اس کے بروقت تشخیص و علاج کے تصور کو فروغ دیا جا سکے۔ دماغی و اعصابی امراض معذوری کے نتیجے میں زندگی کے قیمتی سال ضائع کروانے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ دماغی و اعصابی معذوری طویل مدتی جسمانی، ذہنی اور سمجھ بوجھ کے حوالے سے ہوسکتی ہے جو کسی بھی فرد کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے سے روک سکتی ہے۔ دماغی صحت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کو ترجیح دینے کیلئے آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پیدائشی معذوریوں کی فوری تشخیص کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے تاکہ قابلِ علاج معذوریوں کے مستقل ہونے سے پہلے ان کا علاج کیا جاسکے۔