ہم نے جب ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا تو ہمارے صوبے میں چھ ضلعے تھے ہم جس ضلع میں رہتے تھے اُس کا نام ضلع ہزارہ تھا۔ اب تو صوبے کا نام بھی تبدیل ہو کر خیبر پختونخوا ہو گیا ہے اور اس میں اتنے اضلاع ہو گئے ہیں کہ ہمیں ان کے نام بھی یاد نہیں ہیں۔ اب توفاٹا بھی اس کا حصہ ہو گیا ہے اور اب اس کی آبادی بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جتنی آبادی ہمارے بچپن میں پورے پاکستان کی ہوا کرتی تھی جس میں مشرقی بنگال اور مغربی صوبے سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور اس وقت کا صوبہ سرحد شامل تھے آج کل ایک صوبے کی آبادی بھی اس سے زیادہ ہے ۔ اب جو ہمارا ضلع ہوا کرتا تھا وہ اب ڈویژن بن چکا ہے اور اس میں اضلاع کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ تو کہہ یہ رہے تھے کہ ہمارے ضلع میں تین بڑے دریا( جنہیں ہم ندیاں کہا کرتے تھے) تھے۔ جن کے نام دریائے دوڑ ، دریائے کنہار اور دریائے سرن تھے۔ یہ تینوں دریا ہزارہ کے پہاڑوں سے نکلتے تھے او رجب میدان میں پہنچتے تو اُن کے پانی کی رفتا ربہت زیادہ ہوتی تھی۔ دریائے دوڑ کا نام ہی اس کے تیز رفتار پانی کی وجہ سے پڑا تھا۔ اب بھی یہی دریا اس ڈویژن میں بہتے ہیں اور ان میں پانی کی رفتار وہی ہے۔ جب بھی بارشوں کا موسم آتا ہے تو حکومت ان دریاو¿ ں میں نہانے سے منع کر دیتی ہے کہ اس میں پانی کی تیزی کے سبب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس سال محکمہ موسمیات کی پیش گوئی تھی کہ بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی او روہی ہوا کہ بارشیں معمول سے بہت ہی زیادہ ہوئیں جنہوں نے پورے پاکستان میں ہی جل تھل ایک کر دیا جس کی وجہ سے لاہور ، کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ادھر بھی پہاڑوں پر معمول سے بہت ہی بڑھ کر بارشیں ہوئیں ۔ اس سے قبل کچھ سالوںسے بارشیں بہت کم رہی ہیں جس کی وجہ سے دریاو¿ںمیں پانی بہت کم رہا ہے خصوصاً دریائے دوڑ کے کنارے پانی کے بہاو¿ سے بہت دور ہو گئے۔ لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور دریا میں پلاٹنگ کر کے مکانات تعمیرکر لئے۔ اب جو ساون نے اپنا رنگ دکھایا تودریا نے اپنا بہاو¿ اپنے سابقہ کناروں تک بڑھا دیا تو وہ مکانات جو لوگوں نے پانی کے راستے میں بنائے تھے وہ تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ اسی طرح جو سڑکیں دریا کے راستے پر اس طرح بنائی گئی تھیں کہ وہاںکسی پل کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی وہ سڑکیں بھی پانی اپنے ساتھ ہی بہالے گیا ۔ زیادہ تر شہروں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ نکاسی آب کا انتظام کسی کی ترجیح نہیں اور جب بارشیں ہوجائیں توپھر گلیوں اور سڑکوں پر ندی نالوں کی طرح پانی بہتا ہے۔سیلابوں سے بچاﺅ کیلئے اب ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا چاہے وہ ندی نالوںاور دریاﺅں میں آنے والے سیلاب ہوں یا پھر اندرون شہر سڑکوں پر پانی ۔دریاﺅں کے کنارے یا بارشی پانی کے راستے میں آبادی کی اجازت ہر گز نہ ہو اور اگر ایسی کوئی آبادی ہے تو اسے تجاوزات سمجھتے ہوئے فوراً گرا دینا چاہئے تاکہ پانی کا راستہ نہ رکے اور مالی و جانی نقصان سے بچا جا سکے۔اب تو یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ساون میں خوب بارشیں ہوتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر یہ معاملہ زیادہ گھمبیر صورت اختیار کرگیا ہے اس لئے پہلے سے تیاری کی جائے تو ان تمام مسائل سے بچا جا سکتا ہے جن کا ساون کے مہینے میں اکثر سامنا رہتا ہے اس کے لئے اگر ضرورت ہے تو ٹھوس منصوبہ بندی اور موثر لائحہ عمل کی۔