وزیر خارجہ بلاول بھٹوزرداری اور ان کے امریکی ہم منصب انتونی بلنکن کی گزشتہ روز کی ٹیلی فونک گفتگو اور پاکستان کی اقتصادی بحالی کیلئے امریکی حمایت اور افغانستان سمیت مشتر کہ علاقائی دلچسپی کے امور پر گفتگو خوش آئند ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے خطے میں امن و سلامتی اور ترقی کے فروغ کیلئے باہمی روابط کی اہمیت پر زور دیا اور دہشت گردی کے خطرے سمیت علاقائی سلامتی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ دھوپ چھاﺅں کا کھیل معلوم ہوتے ہیں ۔ یہاں گرمجوشی کے لمبے دورانیے بھی آئے اور سرد مہری کے طویل وقفے بھی ۔ تعلقات خواہ فرد کی سطح پر ہوں یا اقوام کی سطح پر وہی مثالی ہیں جن میں توازن اور ٹھہرا پایا جائے، مگر پاک امریکہ تعلقات میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکی اور اس میں کلیدی کردار بظاہر امریکہ کا ہے۔ پاکستانی عوام کی رائے یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کے ترازو کا امریکی مفادات والا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے ۔یوں تو کہیں بھی خارجہ تعلقات مفادات سے تہی نہیں ہوتے جیسا کہ برطانوی وزیر اعظم لارڈ پالمرسٹن کا قول ہے کہ ملکوں میں دوست اور دشمن مستقل نہیں، صرف مفادات مستقل اور دائمی ہیں۔ بہر کیف پاک امریکہ تعلقات کی ایک تاریخ اور اس کی اہمیت ہے اور دونوں ممالک میں عوامی سطح پر روابط تجارت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں تعاون کی ایک روایت موجود ہے جس کی بنیاد ہماری تاریخ میں کافی گہری ہے۔ دونوں ممالک باہمی تعاون کے متعدد معاہدوں کے دستخطی ہیں اور اس کی بھی اپنی اہمیت ہے تاہم پاک امریکہ تعلقات کے باب میں جو چیز پاکستانی عوام کیلئے باعث حیرت رہی ہے وہ یہ کہ امریکہ کی علاقائی پالیسی میں ردو بدل پاکستان کیساتھ تعلقات پر فوری اور گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ کہنے کو جمہوری اصول اور قانون کی حکمرانی کے احترام کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان اصولوں اور تاریخی تعلق کی اہمیت کے بجائے خطے میں امریکی پالیسی اور دلچسپی کی نوعیت ہی پاک امریکہ تعلقات کے درجے کا تعین کرتی ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ قریب نصف صدی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اور پاکستان کا ایک عام شہری بھی اس معاملے میں کسی مغالطے کا شکار نہیں کہ جب جب امریکہ کو خطے میں پاکستان کی ضرورت پڑی تعلقات بہت بلندیوں پر پہنچ گئے اور یہ ضرورت پوری ہونے کے ساتھ ہی تعلقات کی گرمجوشی ماند پڑ گئی یہاں تک کہ پابندیوں تک کی نوبت آئی۔ پریسلر ترامیم تو آج کی پاکستانی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے مگر یہ سلسلہ طویل ہے اور 1965 تک جاتا ہے۔ جس کے بعد اگلے قریب پندرہ برس تعلقات کی اونچ نیچ اور سردمہری یونہی برقرار رہی یہاں تک کہ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد امریکہ کی اس خطے میں دلچسپی بڑھی اور اس کیساتھ ہی پاکستان کیساتھ امریکی تعلقات کی گرمجوشی کا موقع بھی پیدا ہو گیا۔ 11/9 کے بعد افغانستان میں امریکہ کی دوبارہ دلچسپی کا موقع بار دگر پیدا ہوا اور یہ 2021 کے وسط میں امریکی انخلا کے وقت تک بتدریج گھٹتی گھٹتی اس حد تک گھٹ گئی کہ 90 کی دہائی کی یاد آنے لگی جب پاک امریکہ تعلقات گرمجوشی سے بھی محروم ہو گئے اور عسکری و اقتصادی امداد بھی تقریبا ًرک گئی تھی۔ اس قسم کی صورتحال بے یقینی اور اعتماد میں کمی کا سبب بنتی ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ پاک امریکہ تعلقات تاریخ کے تناظر میں متعین کیا جائے تا کہ تعلقات میں تسلسل قائم رہے ۔