نگران حکومت کے اختیارات؟

گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا‘ مذکورہ ترامیم میں اگر چہ انتخابات کے حوالے سے متعدد انتظامی اور تکنیکی نوعیت کی ترامیم شامل ہیں، جیسا کہ ووٹرز لسٹ پولنگ سٹیشن سے باہر آویزاں کرنے کی پابندی‘ الیکشن کی رات دو بجے تک نتائج دینے کی پابندی یا تاخیر کی ٹھوس وجوہات کی صورت میں اگلے دن دس بجے تک نتائج دینے کی ڈیڈ لائن‘پولنگ سے پانچ روز قبل پولنگ سٹیشن کا تبدیل نہ کیا جانا‘ انتخابی عملے کے افراد کو اپنی تحصیل میں انتخابی ڈیوٹی پر تعینات نہ کرنے کی پابندی اور سکیورٹی اہلکاروں کا پولنگ سٹیشن سے باہر تعینات کیا جانا وغیرہ۔ مگر انتخابی عمل کے حوالے سے ان بظاہر بے ضرر ترامیم کے بیچ جو تو جہ طلب پراسرار نکتہ شامل کیا گیا ہے اور جس نے حکومتی اتحادیوں اور حزب اختلاف کو یکساں بے چین کیا ہے وہ نگران وزیرا عظم کے اختیارات کے بارے میں ہے۔ نگران حکومت کا مطلب ایک ایسی حکومت ہے جس کی غیر جانبدار حیثیت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی نگرانی میں شفاف انتخابات منعقد کرائے جاسکیں۔ اس لحاظ سے نگران حکومتوں کے اختیارات ایک ریگولر حکومت سے واضح حد تک محدود اور مخصوص نوعیت کے روز مرہ معاملات تک محدود ہوتے ہیں اور انتخابات کی یہ حد بندی ہی نگران حکومت کے وجود کا جواز ہے مگر موجودہ حکومت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ230 میں ترمیم کے ذریعے اس حد بندی کو مٹا دیا ہے۔ مذکورہ ترمیم کے ذریعے نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں جس طرح اضافہ کیا گیا ہے اور نگران حکومت کو ملک کے بہتر مفاد میں جس طرح پالیسی فیصلے کرنے کا اختیار سونپ دیا گیا ہے اور بین الاقوامی اداروں اور غیر ملکی حکومتوں کیساتھ معاہدے کرنے کا مجاز بنادیا گیا ہے اس پر کئی حلقوں میں بجاطور پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے یہ موقف پیش کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سمیت کئی مالیاتی اداروں کیساتھ معاملات زیر غور ہیں اور حکومت کی تبدیلی کیساتھ اس عمل میں تعطل نہیں آنا چاہئے اس لئے  یہ انتظامات اس لئے کئے گئے ہیں مگر یہ سارا عمل جس جلد بازی میں مکمل ہوا ہے اس نے خدشات کو بڑھاوا دیا ہے۔ ایک اہم ترین نوعیت کی قانونی تبدیلی جس کا اثر آنے والے انتخابات اور ممکنہ طور پر ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت پر بھی پڑ سکتا ہے کے معاملے میں ضروری تھا کہ اتفاق رائے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاتا۔ ہمارا نظام حکومت کہنے کو تو جمہوری ہے مگر عملاًبرسر اقتدار طبقہ جمہوری اقدار کو درخور اعتنا سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا‘ پارلیمان میں ہونے  ہونے والے فیصلوں میں ضروری ہوتا ہے کہ قومی یکجہتی کا احساس اجاگر ہو لیکن ایسا نہیں ہوتا‘نگران حکومت کے اختیارات کے حوالے سے ترامیم ہی کو لیں، جس پر حکومت کی کم از کم دو اہم اتحادی جماعتوں نے کھل کر اعتراضات کئے ہیں اور اس قانون سازی کو مفادات کا ٹکرا اور آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے‘ مگر یہاں حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اعتراضات اور اس حوالے سے وزنی دلائل بطور خاص قابل غور ہیں اور ہمارے ہاں پارلیمانی فیصلوں کی عجلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ حکومت کا موقف اپنی جگہ اور بلاشبہ اس میں دورائے نہیں کہ اس وقت کئی معاشی منصوبے اور معاہدے شروعاتی مراحل میں ہیں، اس تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے کئے گئے اقدامات میں حکومتی نیک نیتی بھی اپنی جگہ، مگر اس معاملے میں جس عجلت پسندی سے کام لیا گیا اور حکومت نے اپنے اہم اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا یہ طرز عمل شبہات کا موجب ہے۔