غذائی عدم تحفظ

غذائی عدم تحفظ کے لحاظ سے دنیا کے 121 ممالک میں پاکستان کی درجہ بندی 99ویں نمبر پر کی گئی ہے۔ ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ نامی درجہ بندی ہر سال جاری کی جاتی ہے جس میں مختلف ممالک میں خوراک کی دستیابی اُور عدم دستیابی اور خوراک کو لاحق خطرات جیسے تین بنیادی امور کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہر سال پاکستان میں ’بھوک‘ سے متعلق اعدادوشمار پہلے سے زیادہ خوفناک منظر کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سولہ برس میں پاکستان میں بھوک کی صورتحال ہر سال پہلے سے زیادہ خراب ہوئی ہے اور یہ گراوٹ بھوک اور غذائی قلت سے نمٹنے میں پیش رفت میں رکاوٹ بننے والے مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے ہے جنہیں ’عالمی ادارے کے بقول‘ فوری حل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر غذائی تحفظ کو خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی تو بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کم ہوتی غذائی پیداوار معاشی ترقی کی رفتار مزید سست کر دے گی۔ رپورٹ میں اس بحران میں کردار ادا کرنے والے متعدد عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جن میں آب و ہوا کی تبدیلی اور کورونا وبائی مرض جیسے عوامل شامل ہیں۔ ان چیلنجوں نے ملک میں غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کو درپیش خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں بھوک کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں غذائی عدم تحفظ سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت بچوں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں بچوں کی نشوونما کو لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے‘ جو نوجوان آبادی کے لئے غذائیت و صحت کے اقدامات کو ترجیح دینے جیسی اہم ضرورت پر زور دیتی ہے۔ تقاضا یہ ہے کہ غذائی تحفظ‘ قومی تشویش کے طور پر ترجیح ہونی چاہئے اور اِس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے مو¿ثر طریقے سے وسائل مختص ہونے چاہئیں۔ زراعت‘ تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری ’لچکدار غذائی نظام‘ کی تعمیر کے اہم عوامل میں شامل ہے جن پر توجہ دے کر مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لئے مقامی برادریوں‘ چھوٹے بڑے کاشتکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے اِس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ حکومتی پالیسیاں آبادی کی بالعموم مخصوص ضروریات کے مطابق ہوں۔ فوڈ سیکورٹی کو ترجیح دے کر‘ شہریوں کی شرکت کو فروغ دے کر اور پائیدار حل اپنا کر‘ پاکستان بھوک کے خاتمے اور عوام کے بہتر مستقبل کو محفوظ بنانے کی سمت میں اہم پیش رفت کر سکتا ہے۔ وقت ہے کہ عملی اقدامات سے غذائی تحفظ یقینی بنایا جائے جس کے لئے زراعت میں سرکاری و نجی سرمایہ کاری کے امکانات سے فائدہ اُٹھانا قومی ترجیح ہونی چاہئے اور یہی حکمت عملی ملک میں مہنگائی کی شرح کم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔