روس یوکرین تنازعے کے پوری دنیا پر جس قسم کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ان میں غذائی قلت کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ روس اور یوکرین دونوں ممالک کا شمار دنیا کے بڑے غذائی اجناس پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ۔ا س لئے تو ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی سے روس اور یوکرین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ دونوں ممالک کی زرعی اجناس کو بیرون ممالک بھیجنے کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ جولائی میں یہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے اور اب روس کا موقف ہے کہ جب تک امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک روس کے تحفظات کا خاتمہ نہیں کرتے ، وہ یوکرین سے زرعی اجناس کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دے گااور بحیرہ اسود میں تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت کو بھی روس کے ساتھ تصادم کی نظر سے دیکھے گا۔ ان حالات میں یوکرین نے کہا ہے کہ اس نے اپنے اناج کی برآمد کے لیے اب کروشیا کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔ روسی یوکرینی جنگ میں ماسکو نے یوکرین کے ساتھ اس کے اناج کی اپنی سمندری بندرگاہوں کے راستے برآمد کا معاہدہ حال ہی میں ختم کر دیا تھا۔مشرقی یورپی ملک یوکرین‘ جس کی گزشتہ برس فروری کے اواخر میں روسی فوجی مداخلت کے بعد سے ماسکو کے ساتھ جنگ جاری ہے، گندم سمیت کئی زرعی اجناس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس کی اجناس ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔اس تناظر میں یوکرین میں یوکرینی حکومت کی طرف سے بتایا گیاکہ یوکرین اور یورپی یونین کے رکن ملک کروشیا کے مابین ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت یوکرین اپنی زرعی اجناس بحیرہ آڈریا میں کروشیا کی سمندری بندرگاہوں کے راستے برآمد کر سکے گا۔یوکرینی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق منصوبہ یہ ہے کہ یوکرینی اجناس پہلے دریائے ڈینیوب کے راستے بحری جہازوں کے ذریعے کروشیا پہنچائی جائیں گی اور پھر وہاں سے بذریعہ ریل بحیرہ آڈریا کے ساحلوں تک۔بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یوں کروشیا کے راستے برآمد کی جانے والی یوکرینی اجناس کا مجموعی حجم کتنا ہو گا۔یوکرین حکومت کو اپنی برآمدی اجناس کے لئے یہ راستہ اس لیے تلاش کرنا پڑا کہ یوں اس نے اپنے لیے پیدا ہونے والی ان مشکلات کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے، جو ماسکو کی طرف سے بحیرہ اسود کی روسی سمندری بندر گاہوں کے راستے یوکرینی اجناس کی برآمد کا معاہدہ ختم کیے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہیں۔روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے باوجود یوکرینی اجناس کی برآمد کا یہ معاہدہ اقوام متحدہ اور ترکی کی ثالثی میں طے پایا تھا اور ماسکو نے گزشتہ ماہ کے وسط میں اس کی مدت پوری ہونے کے بعد اس میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔یوکرینی حکومت اپنی زرعی اجناس کی برآمد میں سمندری کے علاوہ یورپی یونین کے رکن مختلف ممالک میں زمینی راستوں سے بھی اضافے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان ممالک میں سے لیکن پولینڈ جیسی ریاستیں اس ٹرانسپورٹ روٹ کی مخالفت کر رہی ہیں۔یورپی یونین میں بہت سے کسانوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر یوکرینی اجناس ان کے ممالک کی قومی منڈیوں میں پہنچ گئیں، تو قیمتیں کم ہو جانے سے ان کسانوں کو مالی نقصان ہونا شروع ہو جائے گا۔اس طرح دیکھا جائے تو یوکرین اور روس کے تنازعے نے دنیا میں غذائی قلت کے مسئلے کو ہوا دی ہے جس کا بہترین حل تو یہی ہے کہ اقوام عالم ایک طرف روس کے تحفظات کا خاتمہ کریں تو ساتھ یوکرین کی سالمیت کی بھی ضمانت دیں تاکہ عالمی امن کو لاحق خطرات ختم ہو جائیں۔