ہمارے ہاں جس طرح زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے اس کو مد نظر رکھت ہوئے یہ کہنا بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں اس حوالے سے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور اب بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں زیر زمین پانی کئی میٹر نیچے چلا گیا ہے ۔ 2020 میں ملٹی ڈسپلنری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹیٹیوٹ کی شائع کردہ ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں زیر زمین پانی کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں استعمال ہونے والے کل پانی کا 60 فیصد گراﺅنڈ واٹر پمپنگ یا بورنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔اس موضوع پرایک تحقیق کے مصنف کے مطابق پاکستان میں 1960 میں ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیر زمین پانی نکالے جانے کا آغاز ہوا تھا، جس کا مقصد فصلوں کو سیراب کرنا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ 1960 تک ملک بھر میں ان ٹیوب ویلوں کی تعداد محض 30 ہزار تھی جو 2018 تک درجنوں گنا زیادہ ہو کر 12 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔محقق مزید کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیوب ویلوں سے پانی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے نکالا جا رہا ہے، جس سے بہت سے انتہائی سنجیدہ ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔ان کے مطابق پنجاب کی 50 فیصد زرعی اراضی کے نیچے زمینی پانی کی سطح چھ میٹر تک گر چکی ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں اب بورنگ سے بھی پانی حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ ان علاقوں میں تو زیر زمین پانی کی سطح سے متعلق نئے اعداد و شمار تک بھی دستیاب نہیں ہیں۔زرعی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں آبپاشی کے لئے زمین سے پانی نکالا جاتا ہے مگر وہاں بارش اور سیلابی پانی کوری سائیکل کرنے کا مناسب بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہر سال مون سون کے موسم میں سیلابی پانی تباہی مچا کر سمندر میں جا گرتا ہے اور حکام اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتے۔پاکستان کے واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کی مطابق 12.5 ہارس پاور کا ایک شمسی ٹیوب ویل روزانہ 35 ہزار گیلن پانی زمین سے نکالتا ہے۔ یہ شرح 1.5 کیوسک ماہانہ بنتی ہے، جو انتہائی حد تک تشویش کی بات ہے۔فیصل حسین یونیورسٹی آف واشنگٹن کے شعبہ ماحولیاتی انجینئرنگ سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زرعی علاقوں میں کوئی حد ہی مقرر نہیں کہ کس علاقے میں کتنے ٹیوب ویل لگائے جائیں اور وہاں سے کتنا پانی نکالا جائے۔انہوں نے بتایا کہ 2016 میں ان کی کوششوں سے پاکستان واٹر مینجمنٹ باڈیز کو ناسا جیٹ پروپلشن لیبارٹریز کا سٹیلائٹ ڈیٹا حاصل ہوا تھا، جس کی مدد سے حکام کو یہ جاننے میں مدد ملی تھی کہ کن علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس ڈیٹا میں ان پاکستانی علاقوں کی واضح نشان دہی بھی کی گئی تھی، جہاں سیلابی پانی کو با آسانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔پانی کا بے دریغ استعمال اور ا س کے ذخیرے کا نہ ہونا کسی بھی ملک کیلئے بے پناہ مشکلات اور تکالیف کا باعث بن سکتا ہے ، ہمارے ہاں اس مسئلے کا ادراک دیر سے ہوگیا ہے تاہم اب بھی وقت ہے کہ زیر زمین پانی کے استعمال میں کفایت شعاری کا مظاہر ہ کیا جائے۔ خاص طور رپ زیر زمین صاف و شفاف پانی کا استعمال گاڑیاں وغیرہ دھونے کیلئے نہ کیا جائے اور سروس سٹیشنز پر اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ وہ استعمال شدہ پانی کودوبارہ استعمال میں لانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔