سب اپنی اپنی خریداریوں کی فکر میں ہیں

 ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے روزمرہ کی زندگی میں بہت بدلاو¿ آ گیا ہے،گزشتہ کل کا رہن سہن ، تہذیب و ثقافت اور مجلسی زندگی اب قصّہ پارینہ ہو گیا ہے ، یہ بدلاو¿ ہماری شادی بیاہ کی رسومات سے لے کر تہواروں کے ہنگاموں اور موسم کے پکوانوں تک میں آگیا ہے، ایک روزمرہ اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتا تھا کہ جس طرح کسی گاو¿ں کا بازار سر شام ویران ہو جاتا ہے، گاو¿ں میں تب مغرب کے فوراََ بعد پورا بازار بند ہو جاتا تھا اور حجرے آباد ہو جاتے تھے جہاں رات گئے تک رونق رہتی تھی، پھر حجرہ کلچر سمٹا تو بازار نے اپنے بازو پھیلانے شروع کر دئیے، مجھے یاد ہے کہ میرے گاو¿ں اکوڑہ خٹک میں ایک ہی بازار تھا،جو مختلف موڑ مڑتا ہوا مسجد سیاہ سے شروع ہو کر اس میدان سے جا ملتا تھا جہا ں ایک زمانے میں بدھ کے دن ہفتہ وار بازار لگتا تھا جو اول اول تو مویشیوں کی خرید و فروخت کے لئے مخصوص تھا مگر بعد میں وہی روپ دھار گیا جوگزشتہ کچھ برسوں سے جمعہ بازار اور اتوار بازار کی صورت میںبڑے شہروں میں رواج پا چکے ہیں، اکوڑہ خٹک کے بدھ کے میدان میں لگنے والے میلے میں اشیائے خوردنی اور ملبوسات کے سٹالز کے ساتھ ساتھ بازاری حکیم بھی خوب رو نق لگاتے،سانپ اور نیولے کی لڑائی اور طویل طویل من گھڑت قصے کہانیاں سناتے سناتے اپنی دوا بھی بیچ جاتے تھے، لیکن یہ ساری سرگرمیاں شام سے پہلے پہلے ختم ہو جاتیں ،البتہ کبھی کبھی کوئی کمپنی اپنی پراڈکٹس کی پروموشن کے لئے پروجیکٹر اور بڑی سکرین لے کر آ جاتی تو بدھ کا میدان رات کے وقت بھی لوگوں سے بھر جاتا، لیکن ایسی سرگرمی کہیں سال میں ایک آدھ بار ہی ہوتی اس کے علاوہ بدھ کے میدان سمیت سارا بازار سویارہتا، پھر شہروں کے اثرات ہمارے گاو¿ںتک بھی آئے اور دکانیں مغرب کے بعد بھی کھلی رہتیںاور بازار نے اپنے بازو بھی پھیلانے شروع کر دیئے،بدھ کے میدان میں بھی پلازے اُگنے لگے ، گاو¿ں کی زندگی نے انگڑائی لی اور نئے سرے سے روزمرہ کے معمولات ترتیب پانے لگیں، شادی کی رسومات بارات ولیمے جو دن کو ہوتے تھے اب رات کو ہونے لگے، شہروں میں تو رات کے وقت بہت رونق رہتی ہے کراچی کو روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد اس کی جاگتی راتوں کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے ۔پشاور کا قصہ خوانی بازار بھی کبھی سوتا نہ تھا اب شاید وہ پہلے سی صورت حال نہیں ہے اسی طرح ہشتنگری کی ’ فوڈ مارکیٹ‘ بھی رات کے
 آخری پہر تک پر رونق رہتی ہے، بڑی مارکیٹ بھی رات گئے تک کھلی رہتی ہیں، اگر کبھی سرکار دکانوں کو جلد بند کرنے کا حکم نامہ جاری کردے تو گویا احتجاج کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ شادی ہالوں کے اوقات کو تو کسی حد تک محدود کر دیا گیا ہے، مگر اب شہر ہوں یا گاو¿ںکے بازار رات گئے تک کھلے رہتے ہیں لیکن اس کے برعکس برطانیہ کی ساری مارکیٹس اور بازار عموماََ شام سے بہت پہلے بند ہو جاتے ہیں، اکا دکا سٹور قدرے دیر سے بند ہو تے ہیں البتہ کھانے پینے کے ٹھیے مغرب کے کچھ دیر بعد تک بھی کھلے رہتے ہیں،لیکن دس بجے کے بعد صرف وہ سٹور کھلے ملتے ہیں جن کے پاس چوبیس گھنٹے کا اجازت نامہ ہو مگر یہ بھی پورے شہر میں دو چار ہی ہوتے ہیں، برطانیہ میں گرما کے موسم میں سورج دیر تک رہتا ہے اور شام ساڑھے نو بجے کے بعد ہوتی ہے بعض علاقوں میں تو دس بجے تک سورج ڈھلنے کو تیار نہیں ہو تا، باہر سے برطانیہ آنے والوں کو بدقت تمام سورج کی ان اداو¿ں کا عادی ہونا پڑتا ہے مغرب کی نماز تو چلئے دس بجے تک پڑھ لیتے ہیں لیکن عشا کے لئے انہیں ساڑھے گیارہ بجے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو لوگ پاکستان میں رات دس بجے تک سو جانے کے عادی ہوتے ہیں ان کو نہ صرف عشا کے لئے نصف شب تک جا گنا ہو تا ہے بلکہ فجر کے لئے سحری کے وقت سے بھی پہلے جاگنا ہو تا ہے کیونکہ سورج چار بجے سے پہلے پھر طلوع ہو جاتا ہے ، چنانچہ پہلی پہلی بار یہاں آنے والوں کی کتنے ہی دن فجر کی نماز قضا ہو جاتی ہے، بہت سے لوگ تو فجر پڑھ کر ہی سوتے ہیں، پاکستان میں بہت کم لوگ رات کو جلدی سوتے ہیں یہ اور بات کہ صبح بر وقت جاگ جاتے ہیں ،جب کہ برطانیہ میں یہ مشق مہنگی پڑتی ہے، ابھی جب میںبرمنگھم میں تھا ابھی شام پوری طرح سارے میں پھیلی نہ تھی جب پروفیسر محمود رضا ہمیں دی کیوب نامی ہوٹل کی پچیسویں منزل پر چائے پلانے لے گئے تھے چائے پی کر ہم اٹھنے ہی والے تھے کہ اچانک گٹار سنبھالے ایک جواں
 سال لڑکی اپنی ٹیم کے ساتھ نغمہ سرا ہو گئی ، ماحول خوبصورت ہو گیا تھا اس لئے ہم کچھ دیر رک گئے تھے، ہوٹل سے نیچے اترے تو برمنگھم کے منچلے، کھلنڈرے موڈ میں یہاں وہاں گھومتے نظر آئے، اس علاقے میں کئی ایک پر رونق ریستوران تھے، ہم کچھ دیر پل کے ریلنگ کے سہارے کبھی جل بجھ بتیوں کو دیکھ رہے تھے کبھی پل کے نیچے پانی میں رکے ہوئے سٹیمرز کو دیکھ رہے تھے، ایک بات کی سمجھ ہمیں تو خیر کیا آتی پروفیسر محمود رضا کو بھی نہیں آئی کہ اس پل کے ریلنگ کے سارے لوہے کے راڈز کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد تالے کیوں لگے ہوئے تھے اور یہ سارے تالے بند تھے شاید چابیاں دریا میں پھینک دی گئی ہوں گی، مجھے یاد آیا کہ بچپن لڑکپن میں ٹر ین میں آتے جاتے ہوئے ہم اٹک کے پل پر سے دریا میں سکے پھینکا کرتے تھے۔ اس کی وجہ بھی آج تک سمجھ نہیں آئی تو اب ان تالوں کی وجہ جاننے کا نیا روگ کیا پالتے۔ اس لئے ہم نے عشائیہ کے لئے ایک ریستوران کا رخ کیا لوگ کھانا کھا رہے تھے مگر معلوم ہوا وقت ختم ہو گیا ہے اب مزید سرو نہیں کیا جائے گا۔وہاں آٹھ دس اور ہوٹل تھے ہم جہاں جہاں بھی گئے ایک جواب ملا وقت ختم ہو گیا ہے ابھی ساڑھے دس بجے تھے مگرمسافروں کو کہیں کھانا نہ ملا ، اپنے گیسٹ ہاو¿س پہنچے تو ہو کا عالم تھا گیارہ بجے ہی پورا گیسٹ ہاو¿س سویا پڑا تھا،محمود رضا کو گھر سے گرم گرم بریانی منگانا پڑی، اور میں سوچ رہا تھا کہ اور ان ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ ایک اہم حوالہ وقت کی پابندی اور سسٹم کی پاسداری کا بھی ہے،ہمارے پاس بہت وقت ہے مگر کوئی کام بر وقت نہیں کر پاتے،سسٹم کے معاملے میں ہم محض تماشائی ہیں ‘بعض سیاسی زعما نے سٹیج پر ایک ڈرامہ شروع کر رکھا ہے، ایک ہی کہانی تب سے اب تک چل رہی ہے، وہی کہانی، وہی مکالمے وہی چند کردار ہیں بس ایکٹر بدلتے رہتے ہیں ، ہم سب تماشائی بنے فقط یہ دیکھتے ہیں کہ کس نے کس کو لتاڑا اور پچھاڑا اور کس نے کس طرح پرفارم کیا ،تالی بجانے کے لئے ہم خوب سے خوب تر کی تلاش تو خیر کیا کریں گے غنیمت ہو گا اگر ہم ” بد تر سے بد “ کو بھی ڈھونڈ سکے ، کیونکہ ان زعما کے بارے میں تو غلام محمد قاصر بہت پہلے کہہ چکے ہیں ۔
 سب اپنی اپنی خریداریوں کی فکر میں ہیں
 نظر کسی کی نہیں ہے مرے خسارے پر