اتحادی حکومت نے قومی اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں نو اگست کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی مدت بارہ اگست 2023 ء تک ہے، مگر وقت سے پہلے تحلیل کر دینے کی صورت میں انتخابات کا انعقاد ساٹھ کے بجائے نوے روز تک چلا جاتا ہے اور حکومت اسمبلی کو مقررہ وقت سے تین روز پہلے تحلیل کر کے بادی النظر میں یہی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ حکومتی جماعتوں میں اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے کیساتھ ہی نگران وفاقی حکومت کے قیام کا سوال بھی شدت اختیار کر چکا ہے جس کیلئے بظاہر حکومتی جماعتوں کی مشاورت کئی روز سے جاری ہے مگر ایسا نہیں لگتا کہ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ ہو سکا ہے۔ اس دوران جب سب کیلئے قابل قبول نگران وزیر اعظم کی نامزدگی حکومتی اتحاد میں اتفاق رائے کا تقاضا کرتی ہے‘ڈیجیٹل مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے یعنی آنے والے انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پر کروانے کے سوال پر سیاسی اختلافات بڑھتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ تیسری جمہوری
حکومت نے اپنی مدت مکمل کی ہے تو اسے ملک میں جمہوری استحکام کے ایک حوالے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے مگر یہ جمہوری سفر جس کا آغاز 2018ء کے سیاسی عناد کی بنیاد سے ہوا، مردم شماری کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلاف پر منتج ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس کے ممکنہ اثرات سے آنے والے انتخابات پر شبہات کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مردم شماری کی منظوری دینے کیلئے حکومت کے طلب کردہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کی منظوری کی صورت میں انتخابات کے لئے التواء کا عندیہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جمہوریت کا استحکام انتخابی عمل کے تسلسل میں ہے‘ عام انتخابات کے امکانات اور خدشات اپنی جگہ مگر ان حالات میں آنے والی نگران حکومت کی ہیئت اور اسے درپیش چیلنجر بھی قابل ذکر ہیں۔ معاشی چیلنجز میں مہنگائی قابل ذکر ہے‘ جس کی انتہائی صورتیں حالیہ دنوں توانائی کی قیمتوں میں کئے گئے غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں رواں ماہ کے وسط تک پوری شدت کے ساتھ سامنے آچکی ہوں گی۔ دوسرا چیلنج جو مرکزی حکومت اور صوبوں کو بیک وقت در پیش ہے وہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہے۔ حالیہ دنوں تواتر کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوئے
ہیں اور تمام شواہد ہمسایہ ملک کی جانب اشارہ کرتے ہیں چنانچہ نگران وفاقی حکومت کیلئے امن وامان کا قیام یقینی بنانے کا بڑا چیلنج ہوگا۔ معاشی اور سکیورٹی چیلنجز کے علاوہ جو ایک بڑا چیلنج ہے وہ عوام میں بے یقینی کے احساسات کو کم کرنے اور ملکی خوشحالی کے امکانات پر عوامی اعتماد قائم کرنے کا ہے۔ معاشی ابتری اور سکیورٹی کے مسائل عوامی اعتماد میں کمی کا سبب بنتے ہیں مگر ہمارے ہاں سیاسی بے یقینی ان خدشات کیلئے عمل انگیز کا کردار ادا کر رہی ہے‘اس میں شبہ نہیں کہ وطن عزیز کو اس وقت چو مکھی چیلنجز کا سامنا ہے ایسے حالات میں نا اتفاقی مزید کام خراب کرتی ہے۔ اگلے روز اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ پتے کی بات کہی ہے کہ سیاستدان اور مقتدر حلقے مل کر کام کریں تو ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ ہمارے قومی مسائل ایک حقیقت ہیں، ان سے نظریں چرانا ممکن نہیں مگر مسائل کے اس پہاڑ سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق کا جو ماحول ضروری ہے اس کیلئے سب کومل کر کام کرنا ہوگا۔کیونکہ اہم قومی امور کو اتفاق رائے سے ہی نمٹانا ضروری ہے باقی جہاں تک سیاست کی بات ہے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور جمہوری انداز میں حکومتوں کا آنے جانے کا عمل بھی جاری رہے گا۔