پاکستان کی آبادی اور وسائل کا موازنہ

اس سال ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل نے اگلے روز منظوری دے دی ہے، ملک میں آبادی کے تیز ترین اضافے کی تصدیق کرتی ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ملکی آبادی 24 کروڑ افراد سے تجاوز کر چکی ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ تھی جبکہ 1998 میں 13 کروڑ 23لاکھ کے قریب۔ یعنی پچھلے چھ برس کے دوران ہماری آبادی میں تقریبا ًتین کروڑ 38 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ 25 برس پہلے کے مقابلے میں یہ اضافہ 10 کروڑ 92لاکھ کے قریب بنتا ہے۔ قریب 25 برس کے اس عرصے میں آبادی میں اضافے کی شرح تقریبا یکساں رہی ہے۔ 1998 میں شرح اضافہ 2.69 فیصد تھا 2017 میں 2.40 فیصد جبکہ اس وقت یہ 2.55 فیصد ہے۔ اس شرح سے آبادی بڑھتی رہی تو رواں دہائی کے آخر تک ہماری آبادی تقریبا 29 کروڑ افراد تک پہنچ جائے گی اور
 2050 تک 47 کروڑ کا ہندسہ عبور کر جائے گی۔ اس وقت آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے مگر بلند ترین شرح اضافہ پاکستان کو پہلی چار بڑی عالمی آبادیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس وقت بھارت جو سب سے بڑی عالمی آبادی ہے کی شرح اضافہ 0.81 فیصد ہے چین منفی 0.02 فیصد ریاستہائے متحدہ امریکہ 0.50 فیصد اور انڈونیشیا 0.74 فیصد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے دس برس میں انڈونیشیا کی آبادی جو اس وقت 27 کروڑ 75لاکھ کے قریب ہے اپنی موجودہ شرح نمو کے ساتھ 29 کروڑ 17 لاکھ تک پہنچے گی تو اس وقت تک پاکستان کی آبادی 31 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہوگی۔ مگر آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے اوپر کے ممالک کی معاشی شرح نمو پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا کی پہلے نمبر کی آبادی چین کی جی ڈی پی گروتھ تقریباً 6 فیصد ہے اور انڈونیشیا کی تقریبا پانچ فیصد جبکہ مالی سال 2023 میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 0.29 تھی اور 2024 میں 3.6 فیصد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔آبادی میں اضافے کو منفی طور پر ہر گز نہیں لینا چاہئے تاہم یہ اس صورت میں کہ ساتھ معاشی استحکام بھی بڑھے اور ملک کی زیادہ تر افرادی قوت با روزگار رہے‘ دوسری طرف اگر وسائل اور آبادی کے درمیان توازن نہیں تو معیشت جاندار نہیں ہوگی تو حکومتی آمدنی بھی اس قدر نہیں ہوگی کہ دنیا کی ممکنہ طور پر چوتھی بڑی آبادی کی ترقی پر حسب ضرورت خرچ کر سکے اور کمزور معیشت کی وجہ سے انفرادی آمدنی میں اضافے کی گنجائش بھی محدودتر رہے گی‘ اس بڑے خلا کو قرضوں سے بھی پر کرنا ممکن نہ
 ہوگا، کیونکہ ملکی قرضوں کا حجم پہلے ہی جی ڈی پی کے 90 فیصد کے قریب ہے اور آنےوالے برسوں میں ملنے والے قرض زیادہ تر پہلے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتے رہیں گے‘ معیشت اور آبادی میں یہ تفاوت توجہ کا متقاضی ہے تاکہ آبادی اور وسائل کے درمیان تناسب کو برقرار رکھا جاسکے اور ترقی کا سفر حسب خواہش جاری رہے دوسری صورت میں مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔اگر ہم نے جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کو اس طرح استوار کیا کہ وہاں پر فنی تعلیم کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کیا جائے اور جو لوگ علمی زندگی میں یہاں سے فارغ ہو کر قدم رکھتے ہیں وہ ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں نا کہ وہ بے روزگاری کی صورت میں معاشرے اور معیشت پر بوجھ بنیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آئی ٹی اور دیگر جدید علوم کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جائے اور طلباءکو اس حوالے سے خصوصی رہنمائی فراہم کی جائیں یہ نہ صرف ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے بلکہ اس سے معاشرتی مسائل میں بھی کمی آئے گی۔