ہمارے ہاں مون سون میں سیلابوں سے جو تباہ کاریاں ہوتی ہیں اس کی تلافی پھر سال بھر میں ممکن نہیں ہوتی اور ایسے میں پھر مون سون کاموسم آجاتا ہے۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں دریاﺅں میںطغیانی یا سیلابوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم وہاں پر پھر بھی معمول کی زندگی جاری رہتی ہے ۔ہالینڈایک ایسا ملک ہے جہاں تقریبا ً26% زمین سطح سمندر سے نیچے واقع ہے اور تقریبا 60% علاقہ سیلاب کا شکار ہے۔ تاہم، جب یہاں بارش ہوتی ہے، تو عوام کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے برعکس پاکستان میں جہاں موسلا دھار بارشیں شہروں اور دیہات سب کیلئے مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔
گزشتہ مون سون کی طرح اس سال بھی بڑے پیمانے پر اموات، ٹوٹے گھر اور بکھرے ہوئے ذریعہ معاش نے ایک بار پھر پریشان کن صورتحال پیدا کردی ہے ۔اب تذکرہ ہوجائے ہالینڈ کا۔ہمیں اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کا مظاہرہ ہالینڈنے 1953 کے شمالی سمندری سیلاب کے بعد کیا تھا جس میں 1,836 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہالینڈ کے باسیوں نے تباہی کے اس پیمانے کی ایک اہم وجہ کے طور پر ڈیکس کے بگڑتے ہوئے حالات کی نشاندہی کرنے میں جلدی کی، اور 9 مہینوں کے اندر اندر، ملک بھر میں تمام ڈیکس کی بحالی کر دی گئی۔ آج ایک مضبوط ترین سمندری دفاعی نظام کے ساتھ، نیدرلینڈز اپنے بنیادی ڈھانچے کی جانچ اور مضبوطی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ زمین کم ہونے اور سطح سمندر میں اضافے سے لاحق خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان جدید انجینئرنگ حلوں کے علاوہ، ملک نے یہ بھی دکھایا ہے کہ اس کے روم فار دی ریور پروجیکٹ یعنی دریاﺅں کو راستہ دوکے ذریعے بہا ﺅکو کس طرح آسانی سے قبول کیا جا سکتا ہے۔ ان خطوں کے مکینوں کو اونچی جگہوں پر منتقل کر کے، ڈچ حکومت نے خود کو وقفے وقفے سے آنے والے محفوظ سیلاب کے لئے تیار کر لیا ہے۔اگر نیدرلینڈز جیسا ملک کامیابی کے ساتھ یہی کچھ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ صحیح منصوبہ بندی اور عزم کے ساتھ، ہم بھی ان بار بار آنے والے سیلابی واقعات کو روک سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہو رہا ہے،موسمیاتی تبدیلی میں کم سے کم کردار کے باوجود یہ اس عمل کا بڑا نشانہ ہے ۔
ہمیں ہالینڈ جیسے ممالک سے طاقت اور حوصلہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی یہ بحث کر سکتا ہے کہ ہالینڈ گزشتہ برسوں کے دوران تحقیق اور ترقی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے آبی وسائل کو سنبھالنے میں ایک سرخیل بن گیا ہے اور پاکستان میں جاری معاشی اور سیاسی بحران کے باعث ہمارے پاس جدید حل تیار کرنے اور جانچنے صلاحیت نہیں ہے۔ یہ کوئی عذر نہیں۔کیونکہ سیلاب کی روک تھام اور انتظام کے لیے پاکستان کو جدید ترین ٹیکنالوجی یا غیر ملکی مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ زمین ساخت پہلے سے ہی اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے قدرتی مقامات پیش کرتی ہے۔پانی ذخیرہ کرنے کے ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر کے لئے ان مقامات کو تلاش کرنے اور نقشہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، فطرت پر مبنی حل اپنانے جیسے کہ گیلی زمینوں کا استعمال اضافی پانی کو موڑنے اور گھسنے کے لئے آسانی سے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے حل ہمارے آبی ذخائر میں بھی اضافہ کریں گے اور زیر زمین پانی کے وسائل کے جاری حد سے زیادہ استحصال کا راستہ بھی روکیں گے۔ ہمارے سرکاری محکموں کی ناکافی فنڈز اور غلط ترجیحات کی وجہ سے مسائل کو حل کرنے کے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ایسے ماہرین کی کمی نہیںجو موجودہ موسمیاتی اور ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا کی بنیاد پر سیلاب کے سیلاب کے ماڈل اور مضبوط ابتدائی وارننگ سسٹم تیار کرنے کے لیے اپنے علم اور مہارت کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان نظاموں کو حکام کو الرٹ جاری کرنے کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے جو بروقت انخلا کو یقینی بنا سکتے ہیں اور اثرات کو محدود کرنے کےلئے دیگر قبل از وقت اقدامات کر سکتے ہیں‘ہمارے ہاں یہ مسئلہ عرصہ دراز سے موجود ہے کہ پیش بندی کے طور پر اقدامات کی بجائے ہم ہنگامی حالات میں اقدامات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں جانی اور مالی نقصان کا زیادہ سامنا ہوتا ہے۔