وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے الوداعی خطاب کے دوران اپنی حکومت کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالا تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ مگر یہ سب غیر متوقع نہیں تھا، گزشتہ برس اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیر اعظم کو جس وقت ہٹایا گیا ملک کے معاشی حالات مستحکم نہ تھے آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے عالمی ادارے کی جانب سے بھی مالیاتی تعاون کے امکانات معدوم دکھائی دیتے تھے جبکہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے دوست ممالک کیساتھ تعلقات میں بھی سرد مہری کا سامنا تھا۔ ان حالات میں وہ چیلنجز خارج از امکان نہ تھے جنہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کیلئے شروعات ہی میں مشکلات کھڑی کر دیں۔ اوپر سے ملک کے دیوالیہ قرار پانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ ابھی حکومت ان بحرانوں سے گزر رہی تھی کہ طویل مدتی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے واسطہ پڑ گیا۔ شاید ان اسباب کی وجہ سے قریب ڈیڑھ سالہ دور معاشی حوالے سے ملک کی حالیہ تاریخ کا مشکل ترین دور ثابت ہوا۔ اس دوران ملک میں افراط زر کی شرح کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی' روپے کی قدر میں تباہ کن گراوٹ آئی، زر مبادلہ کے کم ذخائر انتہائی نچلی سطح پر پہنچ جانے سے ایک طویل عرصہ درآمدات پر پابندی لگادی گئی، جس سے اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوئی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا۔ توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود توانائی کے شعبے میں بحران کاخاتمہ نہ ہوسکا۔ مالی سال 2022 میں بجلی کے گردشی قرضوں میں 27 ارب روپے کمی آئی تھی مگر مالی سال 2023 میں ان میں تقریبا 400 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا اور رواں سال مئی کے آخر تک یہ قرضے 2650 ارب روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ برس جون تک 2250 ارب روپے قریب تھے۔ یہ بوجھ اب بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں صارفین پر لادا جارہا ہے۔ گیس کے شعبے میں بھی کچھ اسی قسم کی مشکلات دکھائی دیتی ہے۔ جہاں تک معیشت کے پیداواری شعبوں کا تعلق ہے تو شرح نمو میں صرف 0.29 فیصد اضافے کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایک برس پہلے معیشت کی شرح نمو تقریبا چھ فیصد تھی۔ زرعی پیداوار میں ترقی کی شرح بڑھانے کیلئے اس دوران کوئی ایسا قابل ذکر منصوبہ نظر نہیں آتا جس کے حوالے سے کہا جاسکے کہ آنے والے کئی سال اس کے ثمرات حاصل ہوتے رہیں گے اس طرح پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک صنعتی منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے میں تیزی دکھائی گئی تاہم اس وقت جتنے بھی اکنامک زونز ہیں تقریبا ًا زیر تکمیل ہیں ۔ اس طرح فرد کی آمدنی بڑھانے، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے، تعلیم اور صحت کے نئے منصوبے شروع کرنے یا پہلے سے جاری منصوبوں کی کارکردگی بڑھانے جیسے اقدامات کی منصوبہ بندی ضرورہوئی تاہم وقت کی کمی آڑے آئی۔ آئی ایم ایف کے پیکیج کی بحالی کو پی ڈی ایم کی حکومت کی قابل ذکر کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے اس کے بعد سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے بھی پاکستان کیلئے فنانسنگ کے نئے منصوبوں کے اعلان کیے گئے اور پرانے قرض ری شیڈول ہوئے۔ یوں ڈیفالٹ کا جو خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا چھٹ گیا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی حالات بدستور مشکل ہیں اور درمیانے اور نچلے آمدنی والے طبقے کیلئے سخت مسائل اب بھی موجودہیں۔