جناب انوار الحق کاکڑ نے وطن عزیز کے آٹھویں نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اور شہباز شریف گارڈ آف آنر کے ساتھ اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ملکی سیاست اور جمہوریت کیلئے یہ تبدیلی ایک بڑی پیشرفت ہے۔ اس کے باوجود کہ گزشتہ قومی اسمبلی میں جمہوری امکانات سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جاسکا اور سیاسی انتشار کا ماحول بالعموم اس پانچ سالہ دور پر حاوی رہا یہ خوش آئند امر ہے کہ اس دوران آنے والی دونوں حکومتیں آئینی طریقے سے انجام کو پہنچیں۔ ہماری راہ میں دشواریاں سہی مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر جمہوریت کی پگڈنڈی پر گامزن ہیں، اور ارادہ کرلیں تو راہ کی ان رکاوٹوں کو عبور کرنا اور آنے والے وقت کو اپنے حق میں بہتر بنانا مشکل نہیں ۔ اس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے، جیسا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے لیڈروں سے اتفاق و اتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ ہر سیاسی فریق سے کہیں نہ کہیں غلطیاں ہوئی ہیں مگر وقت کا تقاضا اس راکھ کو کریدنا نہیں اسے دبانا ہے۔ بہرحال پچھلے کچھ عرصے کے دوران کی سیاسی تبدیلیوں کی بابت یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ یہ سیاسی حلقوں میں بلوغت کے اشارہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے سیاسی تجربات سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ جمہوری سیاست میں ضروری ہے کہ اس غیر جمہوری سوچ کو خیرباد کہا جائے اور مثالی طرز حکومت کیلئے سازگار ماحول بنایا جائے۔ ملک عزیز کی پون صدی کی تاریخ میں بہت تجربے ہو چکے مزید تجربات کی تاب نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ پون صدی میں جو کچھ سیکھا اسے بروئے کار لایا جائے۔ اور اس عرصے میں ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ہمارے لیے پارلیمانی جمہوریت ہی بہترین طرز حکومت ہے لوگ اپنے پارلیمانی نمائندے منتخب کریں جو حکومت تشکیل دیں اور جو حکومت تشکیل پائے وہ عوام کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ حکومت کرے۔ پچھلی ڈیڑھ دہائی کے دوران پارلیمان کا تسلسل ایک قابل ذکر پیشرفت ہے۔ اس دوران اگر چہ کوئی وزیر اعظم اپنا دور اقتدار مکمل نہ کر پایا مگر پارلیمان کا تسلسل برقرار رہنا بھی ایک بڑا واقعہ ہے۔ ہمارے رہنماں کو یقینی بنانا ہوگا کہ آنے والے برسوں میں بھی یہ روایت برقرار رہے بلکہ یہ مزید مستحکم ہو، مستحکم حکومت ملکی ترقی اور استحکام، خاص طور پر معاشی استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ سامنے کی مثالیں ہیں کہ وہ ممالک جہاں حکومتی سربراہان کو اپنا دور مکمل کرنے کے مواقع ملے وہاں ترقی کی رفتار ان ممالک کے نسبت بہتر رہی جہاں ایسے حالات نہیں تھے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم ان وسائل کو بروئے کار لانے میں ناکام ٹھہرے۔ قدرت نے وسائل کثرت سے عطا کیے ہیں، جو اکثر ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک کو بھی میسر نہیں، مگر ان نعمتوں سے استفادہ کرنے کیلئے حکمت عملی، تدبر اور زمینی حالات، با صلاحیت قیادت اور استحکام اقتدار سے ممکن ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے یوم آزادی پر ملٹری اکیڈمی کاکول میں منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو کہا پاکستان کے ماحول میں امید حوصلے اور اُمنگ کو تازہ کرنے کیلئے یہ قابل ذکر ہیں ۔ قائد اعظم کا یہ قول دہراتے ہوئے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی ، آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم ان الفاظ کے امین ہیں۔ بے شک پاکستان کی بہادر اور پیشہ ورانہ اہلیت کے لحاظ سے مثالی افواج ہر محاذ پر ملک کا دفاع کرنے کیلئے مستعد ہیں مگر قومی ترقی اور آگے بڑھنے کی لگن میں قوم کا ہر فرد شوق اور جذبے سے مملو ع ہو کر کام کرے تبھی ہم ترقی کی اس منزل تک پہنچ سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف کے خوابوں کی تعبیر اور ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہوگی۔