شبیر حسین اِمام
پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے انتہائی اہم اقدام متحدہ عرب امارات سے گلگت بلتستان کے لئے براہ راست پروازوں کا سلسلہ ہے اُور اس سلسلے میں پہلی پرواز یوم آزادی (چودہ اگست) کے روز سکردو ائرپورٹ پر اُتری ہے جس میں 79 مسافر سوار تھے۔
ایئربس اے 320 کی آمد پر جہاز کو پانی کی توپ اور تمام مسافروں کا پھولوں سے استقبال کیا گیا۔
سکردو کے لئے براہ راست عالمی پرواز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کام کا آغاز دوہزاراکیس میں شروع ہوا تھا جسے مقررہ مدت میں مکمل کرنا اپنی جگہ اہم ہے جبکہ سیاسی حکومت کی تبدیلی کے باوجود ایک اہم منصوبے کو مکمل کرنا اپنی جگہ خوش آئند ہے۔ پاکستان میں ترقیاتی حکمت عملیوں کی ایسی بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں جس میں کسی ایک حکومت کے اچھے کام کو آنے والی حکومت نے جاری رکھا ہو۔
غیرملکی سیاحوں کو پاکستان کی جنت نظیر وادیوں کی طرف راغب کرنے کا یہ انتہائی بہترین طریقہ ہے یقینا سیاحت کی حوصلہ افزائی میں مدد کرنے والی براہ راست بین الاقوامی پروازوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں لیکن اس مرحلہ فکر پر یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیئے کہ اِن پروازوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اُور ابتدا میں اسے منافع بخش ہونے کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ اِس نئے روٹ کو متعارف اُور کامیاب کرانے کے لئے پاکستان کو کچھ سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔
دبئی سے آنے والی پہلی پرواز میں گنجائش سے کم مسافر سوار تھے اُور اس کی بنیادی وجہ مناسب تشہیر کا نہ ہونا ہے۔ دبئی سکردو روٹ کو متعارف کرانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بھرپور تشہیر کی جائے اُور اس کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال بھی ہونا چاہیئے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ صرف پرواز شامل کرنے سے خود بخود نئے مسافر نہیں آئیں گے۔ پرواز کا بنیادی ہدف غیر ملکی اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں تاہم سیکیورٹی خدشات غیر ملکی سیاحوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں اور یہ صرف اسکردو یا باقی گلگت بلتستان سے متعلق سلامتی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان کی صورتحال غیرملکی سیاحوں کے دلوں میں خدشات پیدا کر سکتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ امن و امان کے پائیدار قیام کے بغیر سیاحت کا فروغ ممکن نہیں ہے۔
توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں سیاحتی مقامات کے تناسب سے سیاحوں کے لئے سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ ناکافی سہولیات کو میں اضافے کے لئے بھی سوچ بچار اُور عملی اقدامات ضروری ہیں۔ ملکی و غیرملکی سیاحوں کو سیاحتی مقامات پر زیادہ چارجز کی شکایت رہتی ہے۔ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس یا تو زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں یا ان میں فراہم کردہ بنیادی سہولیات بھی مکمل طور پر معیاری نہیں ہوتیں۔ خطے کی خوبصورتی کے باوجود، بہت سے سیاحوں یہ بات یقینی بنانی چاہیئے کہ انہیں ان کے زحمت اُور اخراجات کی پوری قیمت مل رہی ہے۔ خاص طور پر اگر انہیں ریزورٹ کی سطح پر رہائش کے اخراجات ادا کرنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ غیرملکی سیاحوں کو جس معیار کا کھانا پینا اُور تفریح کی آزادی درکار ہوتی ہے اُس کی فراہمی کے لئے اپنے نہیں بلکہ سیاحوں کے نکتہ نظر سے سوچنا ہوگا۔ مشرق وسطی میں موجود سیاحتی کشش چھوڑ کر اگر سیاح قدرتی ماحول کو قریب سے دیکھنے آتے ہیں تو اُن کا یہ دورہ ہر لحاظ سے یادگار ہونا چاہیئے جس میں تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کو بھی جملہ انتظامات و سہولیات میں شامل ہونا چاہیئے۔ فطرت کی سیاحت سے زیادہ بہتر سیاحت کوئی دوسری نہیں اُور پاکستان کے پاس صرف گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن اُور قبائلی اضلاع میں ایسے لاتعداد قدرتی نظارے موجود ہیں جن سے لطف اندوز ہونے والوں کا تانتا بندھ سکتا ہے لیکن اگر سہولیات کو معیاری اُور امن و امان کے حوالے سے عمومی خدشات کو ختم کیا جائے۔