نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز جو کچھ کہا، اسے وفاقی حکومت کے پروگرام کا لب لباب قرار دیا جاسکتا ہے۔ نگران وزیر اعظم نے عالمی معاہدوں کی پاسداری کا یقین دلایا اور اپنی کابینہ کے ارکان کی قابلیت اور تجربے پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ ایسی بنیادیں ڈالی جائیں جو آگے بھی جاری رہ سکیں۔ نگران وزیر اعظم نے ملک کے زرعی اور معدنی وسائل کا ذکر بھی کیا اور معاشی مسائل کے حل کیلئے بہترین اقدامات کی امید بھی دلائی۔ نگران وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس مختصر مدت میں یہ حکومت اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے انجام دیتے ہوئے اپنا کام مکمل کرے۔ اس میں شبہ نہیں کہ نگران حکومت کی اولین ذمہ داری شفاف اور آزادانہ انتخابات کیلئے ماحول پیدا کرنا ہے۔ انتخابات کا انعقاد بے شک الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مگر غیر جانبدارانہ آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے زمین تیار کرنے میں نگران حکومت کا بہت عمل دخل ہوتا ہے جو نگران حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی اور آئینی ذمہ داریوں کی بجا آوری سے ممکن ہے۔ کابینہ سے خطاب میں نگران وزیر اعظم نے سماجی حالات کا درست جائزہ پیش کیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارا سماج انتشار زدہ ہو چکا ہے اور سیاست اس انتشار کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ سماجی انتشار کے نتائج بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر حقیقی زندگی تک اس کے تاریک پہلوﺅں سے ہمارا قدم قدم پر واسطہ پڑتا ہے۔ لوگوں میں برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ معمولی واقعات پر لوگ طیش میں آجاتے اور آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ خوش مزاجی اور اطمینان قلب کبھی پاکستانیوں کی پہچان تھی، مگر بڑھتے ہوئے داخلی اور خارجی مسائل میں زندہ دلی نایاب ہے۔ سماجی مسائل کی یہ علامتیں خوفناک عارضے ہیں، جن سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ نگران وزیر اعظم کے خطاب سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ ملک کے چیدہ چیدہ مسائل کے حوالے سے ان کا ذہن واضح ہے اور اظہار کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ انہیں ایک تجربہ کار ٹیم کا ساتھ بھی میسر ہے؛ چنانچہ نگران حکومت پر یہ قومی ذمہ داری ہے کہ بلا تاخیر اقدامات شروع کئے جائیں ۔ نگران وزیر اعظم نے مقررہ وقت میں ترقی کی بنیاد ڈالنے کا کہا ہے اگر ایسا ہو سکے تو کیا ہی اچھا ہو مگر وہ اپنے مختصر دور کی آئینی ذمہ داریوں کو بھی پوری صلاحیت کیساتھ ادا کر جائیں تو یہ بھی اس حکومت کی نیک نامی کا باعث ہو گا۔ ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے اور قانون کی حکمرانی کو سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے ہر صورت میں بچایا جائے ۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران اس ماحول نے ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی ۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں نے بھی ان خرابیوں سے کچھ سیکھا ہوگا۔ اب ان جماعتوں پر ہے کہ اپنے رویے سے ثابت کریں کہ اس صورتحال نے کچھ ان کی کایا کلپ بھی کی ہے۔ انتخابات اس کیلئے بہترین کسوٹی ثابت ہو سکتے ہیں اور نگران حکومت صاف شفاف انتخابات کیلئے بھر پور کردار ادا کرے تو یہی اس کی کامیابی کی بڑی دلیل ہوگی ۔ نگران حکومت کی جانب سے ترقی کی بنیاد ڈالنے کی خواہش کو اس کی نیک نیتی پر محمول کرنا چاہیے بہر کیف یہ واضح ہے کہ آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم ہو نیوالی حکومت ہی ترقی کا عمل بحال کر سکتی ہے۔