وحشیانہ مظالم 

سات دہائیوں سے زائد عرصے سے اسرائیل فلسطینیوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہا ہے۔ انہیں زبردستی گھروں سے بے دخل کرنے کے ساتھ فلسطینیوں کا معاشی قتل عام بھی جاری ہے اور اُن پر فضائی حملے بھی کئے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبردار دنیا کو فلسطینی بچوں کا بے رحمی سے قتل نظر نہیں آ رہا اگرچہ زیادہ تر ممالک خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش رہنے کا انتخاب کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے اندر سے اختلاف رائے کی آوازیں عام طور پر ریاست کو راستہ تلاش کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ تازہ ترین آواز اسرائیلی دفاعی افواج کے سابق جنرل امیرم لیون کی ہے جنہوں نے تجویز دی ہے کہ اسرائیلی افواج نازئیوں کے طرح جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور مجرم ہے۔ انہوں نے عربوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر عائد پابندی کی بھی مذمت کی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا کو بار بار اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے ناقابل معافی جرائم کی یاد دلاناضروری ہوگیا ہے۔ایسے حالات میں کہ جب اسرائیل کے اندر سے اس کے مظالم پر باتیں ہورہی ہیں ، عالمی رائے عامہ کواس حوالے سے متحرک کرنا ضروری ہے ۔اسرائیل کے موجودہ داخلی سیاسی بحران نے بھی بظاہر فلسطینی کاز کی مدد کی ہے جیسا کہ یہ ملک اپنی مطلق العنان قانون سازی کا ایجنڈا متعارف کرا رہا ہے‘ اسرائیلی شہری اس بارے میں زیادہ فکرمند ہیں کہ ان کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ خطے میں بدامنی نے اسرائیل کے رہنماو¿ں کے مظالم کو بے نقاب کیا ہے۔ فلسطینی عوام کے حقوق پر حملے جاری رکھنے والے اپنے فاشسٹ رہنماو¿ں کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں انتہا پسند اقتدار تک پہنچ چکے ہیں۔ماضی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے وحشیانہ اقدامات کو دفاعی حربے کے طور پر جائز ٹھہرایا اور مغربی رہنماو¿ں اور اندرون ملک لوگوں کو قائل کیا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ درست تھا۔ اسرائیل کے حامیوں اور شہریوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف کاروائی کو اصلاحی اقدام کے طور پر دیکھا ہے جو اسرائیل کو اپنے مقاصد تک پہنچنے میں مدد کے لئے ضروری ہیں اور اسرائیلی بربریت سے بیزاری رکھتے ہیں۔ دنیا کو فلسطینی کاز کے لئے آواز اٹھانے اور اسرائیل کو اس کے ایک دہائی سے جاری ظلم و بربریت کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی کب تک اکیلے یہ جنگ لڑ سکتے ہیں‘ جب ان کے بچے جنگ اور تشدد کے درمیان بڑے ہو رہے ہوں؟ یہ دباو¿ بین الاقوامی برادری کی طرف سے آنے کی ضرورت ہے جس نے فلسطینی عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے بڑی حد تک دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ دنیا کو اس حقیقت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل نے علاقے کو نوآبادیاتی بنا کر نسل پرست ریاست قائم کر رکھی ہے۔ صرف بین الاقوامی کاروائی ہی اسرائیلی ناجائز قبضے کو ختم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔