برکس کو جی سیون کے مقابلے کی اہم ترین تنظیم بنا کر چین اسے ایک طرح سے دفاعی اور معاشی اتحاد بنا کر دنیا میں اثر رسوخ میں مزید اضافہ چاہتا ہے ۔یہ عالمی مبصرین کی ان آراءمیں سے ایک ہے جو وہ برکس کے حوالے سے دیتے نظر آرہے ہیں۔ ان دونوں جنوبی افریقہ میں منعقدہ برکس اجلاس عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔برکس (برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ) کے رکن ممالک کے رہنماﺅں کی کانفرنس 22 سے 24 اگست تک جوہانسبرگ میں ہونے جا رہی ہے۔یہ اجلاس ایسے حالات میں ہورہا ہے جب چین اور بھارت کے درمیان معاملات تلخی کا شکار ہیں اور دونوں ممالک سرحدی تنازعے میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ یقینی طور پر سرحدی مسئلہ پر بات کرنا چاہیں گے لیکن چین اس بات کو پسند نہیں کرے گا اور اس وقت دیکھا جائے تو چین کا برکس میںا ثر رسوخ کافی زیادہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چین برکس کو توسیع دینے میں مصروف ہے اور برکس میں نئے اراکین کو مدعو کیا
جا رہا ہے۔سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر اور ارجنٹینا جیسے ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس حوالے سے پاکستان بھی رکن بننا چاہتا ہے اور چین اسے برکس کا رکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ برکس سربراہی اجلاس میں پاکستان کے غیرسرکاری نمائندوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے۔اس تناظر میںانڈیا کو ڈر ہے کہ چین برکس پر قبضہ کر سکتا ہے چونکہ یوکرین جنگ کے بعد روس مکمل طور پر چین کے زیر اثر ہے‘ اسی لیے برکس میں روس کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور چین نے خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عرب ممالک میں چین کا اثر و رسوخ کیسے بڑھ رہا ہے ‘ اس کے علاوہ، اس نے برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے‘ایک بین الاقوامی جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین برکس کو دنیا کی سات بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ جی سیون کا حریف بنانا چاہتا ہےٍ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین برکس کو نیٹو مخالف بلاک کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر چین اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ بھارت کیلئے مشکلات کا باعث ہوگا کیونکہ بھارت کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اس وقت وہ کئی طرح کی دفاعی تنظیموں میں امریکہ کےساتھ شریک ہے ‘ اس طرح اقتصادی تعاون میں امریکہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔دوسری طرف امریکہ آج بھی سرد جنگ کے ماڈل پر کام کرتا ہے جس میں جیو پولیٹکس ہے،
تنازعات کا خطرہ رہا، ممالک کو ایک حد تک محدود کرنا ہے اور جنگوں کے ذریعے تسلط قائم کرنا شامل ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں چینی ماڈل کامیاب ہو رہا ہے جس میں کسی بھی ملک کی سیاسی نظام، وہاں انسانی حقوق کی صورتحال سے بالا تر ہو کر ایسے اتحاد قائم کیے جا رہے ہیں جس میں معاشی تعاون پر بات ہوتی ہے۔اسی وجہ سے چین کا بلیٹ اینڈ روڈ انیشیٹو دنیا کے 154 ممالک تک پھیل گیا ہے۔کیونکہ آج دنیا بھر میں اقتصادی معاملات نے سکیورٹی کے خطرے سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے‘ اسی لیے دنیا بھر کے ممالک معاشی تعاون تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں‘جہاں تک برکس میں پاکستان کی شمولیت کا معاملہ ہے تو مبصرین کے مطابق پاکستان کا برکس میں شامل ہونا خوش آئند ہو گا کیونکہ اس سے پاکستان کو آزادانہ تجارت اور خطے کے دیگر ممالک کےساتھ معاشی تعاون کے مواقع میسر آئیں گے‘ مستقبل کی دنیا میں ممالک کو سیاسی تناظر کے بجائے اقتصادی تعاون پر دیکھا جائے گا اور اس دوڑ میں امریکہ اور یورپ چین سے ہار رہے ہیں۔