بجلی کا نظام، جامع اصلاحات کا متقاضی

بجلی کی قیمتوں پر عوامی تشویش اور ملک گیر احتجاجی لہر کے دوران وفاقی حکومت نے اس مسئلے پر غور کرنے کیلئے ہنگامی اجلاس طلب کئے۔ تاہم ملک کے شعبہ برقیات کے نظام اور مسائل کو دیکھا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس نظام میں جامع اصلاحات کے بغیر بجلی کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی کی گنجائش نہیں۔ بجلی کی چوری، بل نہ دینے کی روش، انتہائی مہنگے پیداواری وسائل پر انحصار اورنجی بجلی گھروں کیساتھ کیے گئے معاہدوں کی مخصوص نوعیت ایسے مسائل ہیں، جن کے ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ۔ یہ مسائل ہمارے بجلی کے شعبے کا دہائیوں کا ورثہ ہیں، جن کی جانب توجہ اور ان کا سد باب کرنے کے بجائے ہر حکومت نے اس سے صرف نظر اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات سے کام چلانا مناسب سمجھا، مگر اس طرح مسائل کا طومار بڑھتا چلا گیا اور حالات اس نہج کو جاپہنچے کہ سابق دور حکومت میں بے قابوگردشی قرضوں کا بندوبست کرنے کیلئے بجلی کے صارفین پر انواع و اقسام کے ٹیکس تھوپ دئیے گئے یہ دیکھے اور سمجھے بغیر کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ شہر شہر لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بلوں کا مسئلہ احتجاجی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ داری ان سبھی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ماضی میں اپنے اپنے دور میں اس اہم معاملے میں دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ تھرمل بجلی اور اس میں بھی وہ مہنگے ترین ذرائع جو کلیتاً در آمدی ہیں، پر انحصار کیا گیا، جبکہ اس مہنگی لاگت کا ازالہ کرنے کیلئے نیشنل گرڈ میں نسبتا ًسستے ذرائع سے حاصل ہو نیوالی بجلی کا حصہ بڑھایا نہیں گیا۔ دوسری جانب نہایت مہنگی پیدا کی گئی بجلی کے ضیاع کو کم کرنے اور عالمی معیار تک لانے کیلئے بھی کوئی اقدامات نہیں ہوئے۔ تھرمل بجلی گھر تو لگ گئے مگر ٹرانسمیشن نظام کی خرابیوں کی وجہ سے اس پیداوار کی پوری ترسیل ممکن نہ تھی۔ مقامی سطح پر بجلی کی تقسیم کے مسائل اور چوری بھی بہت ہے۔ اگر ان مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے تو بجلی کے شعبے کی بے قاعدگی کا کافی حد تک سد باب ہو سکتا ہے۔ یہ واضح ہونا چاہئے کہ بجلی کے نظام میں جامع اصلاحات کے بغیر بجلی کی قیمتیں ایک مستقل دردسر ، عوامی تشویش اور بے چینی کا سبب رہیں گی۔ یہ کام چند برس پہلے شروع ہو گیا ہوتا تو یہ بکھیڑا آج کہیں کم ہوتا مگر اس راستے کو ہموار کئے بغیر چارہ نہیں اس لیے بغیر وقت ضائع کئے اس کام کو شروع کر دینا چاہئے۔ ملک میں سستے پیداواری وسائل کو اولین ترجیح بنایا جائے، جن میں ہائیڈل اور سولر توانائی کے منصوبے سر فہرست ہونے چاہئیں۔ تھرمل بجلی کیلئے بھی مہنگی ترین ایل این جی کے بجائے کوئلہ اور فرنس آئل پر واپس جانا ہوگا کیونکہ ایندھن کی لاگت کم کرنا اس وقت اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جہاں تک ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کا تعلق ہے اس کی ذمہ داری اور مالی بوجھ صارفین پر ڈالنے کے بجائے مسئلے کو حل کیا جائے۔