نگران حکومت کو آتے ہی بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔ ملک بھر میں بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہیں، مگر پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس غصے سے بھرے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں۔ نگران حکومت ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کی صورت میں عوامی رد عمل کے بعد کئی مرتبہ سر جوڑ کر بیٹھی مگر آئی ایم ایف کی بندشوں کے باعث کوئی فیصلہ نہ کر سکی۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنا تو دور کی بات، اس میں ہونے والا اضافہ ہی تھمنے کا نام نہیں لے رہا، مزید دو روپے سات پیسے اضافے کیلئے سی پی پی اے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ ان حالات میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ ڈالر کی اڑان اور روپے کی گرتی قدر آنے والے وقت میں مزید معاشی بدحالی کا پیغام دے رہی ہے، مگر ایکس چینج ریٹ بجلی اور تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے نگران حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ با ضابطہ رابطہ کر کے
بجلی کے بلوں میں ریلیف کیلئے بات چیت کا وقت مانگ لیا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ پلان شیئر ہونے کے بعد عالمی مالیاتی ادارہ فیصلہ کرے گا کہ نگران حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف کیلئے کوئی فیصلہ کر سکتی ہے یا نہیں ۔ موجودہ ملکی معاشی صورتحال آنے والے دنوں کا سیاسی منظر نامہ طے کرے گی ۔ اس عوامی ردعمل کے باوجود فوری عوامی ریلیف نہ دینے کی مجبوری ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کے ٹائم فریم پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ سابق حکمران جماعت طے شدہ طریقے کے تحت انتخابات کا انعقاد چند ماہ کیلئے التوا کا شکار کرانے میں بظاہر کامیاب ہوگئی مگر امریکا اور مغربی ممالک پاکستان کے انتخابی عمل اور ٹائم فریم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام کی جانب سے تو آئے روز پاکستان میں بروقت اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے بیانات آرہے ہیں۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیر اعظم کے ساتھ ملاقاتیں بھی بتارہی ہیں کہ مغرب پاکستان میں انتخابات کے غیر ضروری التواءکو سپورٹ نہیں کرے گا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اگرچہ 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے، مگر اس بات پر تسلی بخش جواب نہیں دے پارہی کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے دوران اس نے کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی ؟ مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نئی مردم شماری پر الیکشن کا معاہدہ کیا تھا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیتے وقت یہ طے نہیں ہوا تھا کہ اس سے انتخابات
تاخیر کا شکار ہوں گے پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے موقف کی حامی بن چکی ہے جبکہ (ن)لیگ، جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کی حامی ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کراچی سے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جلد الیکشن کیلئے جن وجوہات کی بنیاد پر شور مچاتی نظر آتی ہے ان میں پہلی وجہ یہ ہے کہ آئندہ منتخب سیٹ آپ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو وفاق میں اس کی خواہش کے مطابق حصہ ملتا نظر نہیں آرہا جبکہ نگران سیٹ آپ کا طوالت اختیار کرنا سندھ میں صورتحال خراب کر سکتا ہے۔ آنےوالے چند روز میں پاکستان پیپلز پارٹی مہنگائی اور عوامی ایشوز کو بنیاد بنا کر انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر دباﺅ بڑھانے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ پی پی کو اندازہ ہو چکا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فائدہ مسلم لیگ (ن)کو ہوگا۔