زمانہ تیزی سے بدلتاجارہاہے اب یہاں حقیقت سے زیادہ تاثر یا پرسیپشن کی چلتی ہے یعنی کسی کے متعلق جوتاثر کامیابی کے ساتھ پھیلایا گیا اس کو ختم کرنا پھر بہت مشکل ہوجاتاہے اسی لیے تو ہمارے محترم میجرعامر ایک عرصہ سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ زمانہ پرسیپشن میکنگ یعنی تاثرسازی کاہے خاص طورپر مس پرسیپشن کے ذریعہ دنیا بھر کو گمرا ہ کرکے بڑی طاقتیں اپنے مقاصد حاصل کرتی جاتی ہیں مثال کے طورپر امریکہ نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا پرسیپشن بنایا اور مسلسل پروپیگنڈہ کے بعد عراق پر بھیانک جنگ مسلط کی جو وسیع تر جانی و مالی نقصان کا سبب بنی بات ہورہی تھی دوسروں کے تعلق سے بننے والی یا بنائی جانے والی رائے کی جسے انگریزی میں پرسیپشن کہا جاتا ہے پرسیپشن کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی تو ہم کسی کے بارے میں جو رائے بن جاتی ہے ا±سے بنے رہنے دیتے ہیں اور یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ وہ کتنی درست ہے اور کبھی اپنی رائے دوسروں کے زیر اثر بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے پیدا ہونے والی بدگمانی کے متعدد اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ یا تو جو رائے بنی ا±سے درست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا دوسروں کے زیر اثر رہے۔ غلط رائے بدگمانی پیدا کرتی ہے۔ معاشرہ میں بدگمانی کتنی ہے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہوتا۔ کبھی یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس سے بدگمان ہے، کیوں ہے، کب سے ہے اور کب تک رہنا چاہے گا جبکہ سب جانتے ہیں کہ بدگمانی تلخی پیدا کرتی ہے، رشتوں کو توڑتی ہے حتیٰ کہ ا±نہیں تلف کردیتی ہے۔ یہ بدگمانی اکثر اوقات ازخود بننے والی غلط رائے کا نتیجہ ہوتی ہے یا دوسروںکی رائے کو اپنی رائے کا درجہ دے دینے کی سہل پسندی کا۔ انسان بہتوں کے بارے میں عرصہ دراز تک ازخود بنی ہوئی یا بنائی ہوئی رائے پر قائم رہ کر حقیقت سے دور رہتا ہے اور اس حقیقت سے منہ چراتا رہتا ہے کہ پرسیپشن اور ریالٹی میں فرق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ پرسیپشن ریالٹی ہو مگر اس کے ریالٹی نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے، انسان کے اپنے نقطہ نظر کی مرہون منت یا دوسروں کے نقطہ نظر سے مستعار ہوتی ہے جبکہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے، تعارف اور تعریف سے بالاتر۔ ایک شخص کی رائے عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مگر حقیقت ہمہ وقت حقیقت ہی رہتی ہے، تبدیل نہیں ہوتی۔ رائے انسان کی جانبداری اور ا±س کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ پر مبنی ہوتی ہے جبکہ حقیقت کا انسان کی جانبداری اور سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ رائے صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی مگر حقیقت ہمیشہ صحیح ہوتی ہے، اس کے غلط ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح رائے انسان کی پسند ناپسند پر مبنی ہوتی ہے جبکہ حقیقت کا پسند ناپسند سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انسان پسند کرے تب بھی وہ حقیقت ہے اور ناپسند کرے تب بھی حقیقت ہے۔ دوسروں کے بارے میں قائم ہونے والی رائے یا پرسیپشن کا مسئلہ تو ہزاروں برس سے قائم ہے ہی، خود اپنے بارے میں بھی بہتوں کی رائے کا درست نہ ہونا ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ انسان مدتوں اپنے بارے میں پرسیپشن میں جیتا ہے اور ریالٹی سے دور رہتا ہے۔ بہت سے لوگ خود کو روشن خیال تصور کرتے ہیں، ا±صول پسند خیال کرتے ہیں، بلند حوصلہ سمجھتے ہیں یا حق و انصاف کیلئے مزاحمت کرنے والا قرار دیتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ واقعی ویسے ہوں ایک ہی ملک کی مختلف قوموں میں یا مختلف ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کی بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہی رائے یعنی پرسیپشن ہے جو یا تو بن جاتا ہے یا بنایا جاتا ہے۔ امریکہ نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا پرسیپشن بنایا اور مسلسل پروپیگنڈہ کے ذریعہ درجنوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے بعد عراق پر بھیانک جنگ مسلط کی جو غیر معمولی جانی و مالی نقصان کا سبب بنی مگر حقیقت اس کے برخلاف تھی۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد معائنہ کاروں نے دو سال تک عراق کا چپہ چپہ چھانا مگر مہلک ہتھیار ڈ’ھونڈ نکالنے میں ناکام رہے۔ ا±نہوں نے کم و بیش سترہ سو مقامات کا جائزہ لیا تھا مگر بے نیل مرام لوَٹے۔ تب تک عراق کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی اور عوام کی ہنستی کھیلتی زندگی نشان ِ عبرت بن گئی تھی۔ بعد میں حکومت ِ امریکہ نے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ صدام حسین نے مہلک ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ دس سال پہلے تلف کردیا تھا۔ رائے بن جائے یا بنادی جائے، اکثر نقصان اور خسران پر منتج ہوتی ہے جس کا فائدہ وہ لوگ ا±ٹھاتے ہیں جو فائدہ ا±ٹھانے ہی کے مقصد سے رائے بگاڑنے یا غلط رائے بنانے پر خود کو مامور کرتے ہیں۔ اگر غلط رائے کی بنیاد پر ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے اور کبھی جنگ برپا ہوجاتی ہے جو طویل مدتی اثرات قائم کرتی ہے تو معاشرتی اور خاندانی سطح پر بھی غلط رائے نقصان ہی سے دوچار کرتی ہے۔ غلط رائے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدگمانی نے دلوں میں نفاق کو جنم دیا ہے، ذہنوں کو مسموم کیا ہے، گھر توڑے ہیں، خاندانوں کو منتشر کیا ہے تاثر سازی یعنی پرسیپشن میکنگ کے اس دور میں ہم قومی سطح پربہت پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے تو ہمارے متعلق جو مس پرسیپشن پھیلایا جاتاہے پھر اس کی صفائی بھی ہم کامیابی کے ساتھ نہیں کرپاتے چہ جائیکہ کسی کے متعلق پرسیپشن قائم کریں تاثر سازی کی اس دوڑ میں ہمیں خود ہرصورت آگے رکھناہوگا نہ صرف اپنے متعلق منفی تاثر کو ختم کرناہوگا بلکہ مثبت تاثر کو فروغ دے کر عالمی سطح پر اپنے قومی مفاداتی ایجنڈے کو تحفظ دیناہوگا گھر اور ملک دونوں کی زندگیوں میں تاثرسازی کے اثرات سے کسی بھی صورت انکارممکن نہیں ۔