تیزی سے بدلتی دنیا میں جب سے مصنوعی ذہانت کاعمل دخل بڑھاہے بہت سے معاملات اگرچہ آسان ہوگئے ہیں مگر ا س کے نتیجہ میں سر اٹھانے والے خدشات کو بھی یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس حوالہ سے اگرچہ آج کل باتیں تو ہونے لگی ہیں مگر ان میں سنجیدگی کی حدتک گہرائی فی الوقت دکھائی نہیں دیتی بلاشبہ یہ دور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا دور ہے۔ فطری ذہانت ہی کی پیدا کردہ مصنوعی ذہانت عالم انسانیت کو فائدہ تو پہنچا رہی ہے مگر یہ خدشہ اور فکر بھی دامن گیر ہوتی جارہی ہے کہ یہ فطری ذہانت پر سبقت نہ لے جائے اور خدانخواستہ کوئی دن ایسا نہ آئے جب فطری ذہانت اس کے آگے خود کو بے دست و پا محسوس کرے یا فطری ذہانت کوئی ایسی غلطی کربیٹھے جو مصنوعی ذہانت کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کردے۔ یہی فکر و تشویش اور یہی سوال اِس وقت پوری دْنیا میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے بہت پہلے کہا تھا ”مصنوعی ذہانت میں کامیابی انسانی تاریخ کی غیر معمولی فتح ہوگی مگر بدقسمتی سے یہ آخری فتح بھی ہوسکتی ہے اگر انسان اس کے خطرات کو سمجھے بغیر اور ان سے بچنے کی تدابیر کئے بغیر آگے بڑھتا رہا“ اتنے بڑے سائنسداں کا یہ کہنا مصنوعی ذہانت سے وابستہ اداروں کیلئے انتباہ ہونا چاہئے مگر دْنیا اخلاقیات سے زیادہ مالیات کے پیچھے دوڑنے پر یقین رکھتی ہے اور یہ فلسفہ جدید اس کی رگ و پے میں سما گیا ہے اس لئے کوئی کسی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ دْنیا نے نیوکلیائی طاقت حاصل کی تھی، پھر نیوکلیائی اسلحہ تیار کرنے لگی۔ اس کی تباہ کاریوں سے واقفیت کے باوجود نیوکلیائی اسلحہ کو تلف نہیں کیا گیا۔ بہتوں نے تو یہ تک کہا کہ دْنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے نیوکلیائی اسلحہ ضروری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی سرپھرا لوگوں کو بسیار خوری سے بچانے کیلئے غذا تلف کرنے کی صلاح دے۔ دراصل دْنیا کو یہ طے کرنا چاہئے اور اس کیلئے بین الاقوامی برادری کو ایک ایسے قانون پر متفق ہونا چاہئے جس کے ذریعہ مصنوعی ذہانت کی حد مقرر ہو۔ جو دْنیا کروڑو ں سال سے مصنوعی ذہانت کے بغیر بہت آسانی سے زندگی گزار رہی تھی وہ آج بھی مصنوعی ذہانت کے بغیر آگے بڑھ سکتی ہے۔ تاہم، اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض معاملات اور شعبہ جات میں اس کی ضرورت ہے اور یہ فائدہ مند ہے تو اس کی پیش رفت کو جاری رکھنے میں مضائقہ نہیں البتہ حد ضرور مقرر ہو۔ہم مصنوعی ذہانت کو فطری ذہانت کا غیر معمولی تحفہ سمجھتے ہیں مگر اس میدان میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر قدم بڑھاتے رہنے کے خلاف ہیں چنانچہ اساتذہ اور والدین سے اْمید کرتے ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں کیریئر بنانے والے طلبہ کی ذہن سازی کریں اور اس کے سودوزیاں سے اْنہیں واقف کریں۔ آج کل چونکہ ہر طرف ”اے آئی“ یا ”ایم ایل“ (مشین لرننگ) کا چرچا ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ اب طلبہ کی بڑی تعداد اے آئی یا ایم ایل میں کیریئر بنانا پسند کرے، اس لئے اساتذہ اور والدین کو سمجھ لینا چاہئے کہ اے آئی کی اجازت دینے سے پہلے اْنہیں بہت کچھ سمجھانا بجھانا ہے۔ رب العالمین نے یہ دْنیا خلق کرکے اس میں اشرف المخلوقات کو یوں ہی نہیں بھیج دیا بلکہ مقصد حیات عطا کرنے کے بعد اسے دْنیا کی سربراہی سونپی۔ اس مقصد حیات کا تقاضا ہے کہ انسان نفع بخش حاصل کرے اور جو نفع بخش ہے اْسے نقصان دہ ہونے سے بچائے۔ سائنس اورٹیکنالوجی جیسی اختراع جب تک انسان کو فیض پہنچا رہی ہے تب تک نفع بخش ہے، نقصان پہنچانے لگے تو نقصان دہ ہوگی۔ اے آئی اگر فائدہ مند ہے تو اسے مفید بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہوگا کہ اس میں تربیت یافتہ ذہنوں کے حامل افراد شامل ہوں، جو مادّیت کے پروردہ نہ ہوں اور جو دْنیا کو اے آئی کے ایسے فیوض و فوائد سجھائیں جن کی طرف اس کی توجہ نہ جارہی ہو۔ یہ بڑا کارِ خیر ہوگا۔ اس صورت میں مصنوعی ذہانت فطری ذہانت کے تابع ہی رہے گی اورجب تک یہ فطری ذہانت کے تابع رہے گی تب تک ا س حوالہ سے خدشات کو سر اٹھانے سے روکا جاسکتاہے مصنوعی ذہانت کی اہمیت سے نہ تو انکار ممکن ہے نہ ہی اس کاراستہ روکاجاناچاہئے مگر یہ اصول سامنے رکھا جاناضروری ہے کہ فطری ذہانت کا کوئی نعم البدل نہیں ان دونوں کے درمیان مسابقت شروع ہوچکی ہے اور اس میں بتدریج تیز ی آتی جائے گی جس سے یقینی طورپر مسائل میں بھی اضافہ ہوگا اس لئے اس حوالہ سے ابھی سے ذہن سازی پر توجہ کی ضرورت ہے ساتھ میں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھی جانی چاہئے کہ سار ے معاملات انسان کے گرد گھومتے ہیں اور انسان سے کوئی چیز بھی افضل نہیں۔