جب بھی ملک میں امن عامہ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں یا پھر مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کاجن بے قابو ہونے لگتاہے تو لامحالہ زبان پر ایگزیکٹو مجسٹریسی کانام آنے لگتاہے جس نسل نے یہ آزمودہ نظام دیکھا ہواہے وہی اس کی افادیت کو محسوس کرسکتی ہے 76 سال میں4مارشل لاءلگے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ہر آمر نے اقتدار پر قبضہ کے بعد اپنا ہی سسٹم دینے کی کوشش کی جس کا خمیازہ بعدازاں پوری قوم اور جمہوری اقدار کو بھگتنا پڑا اکتوبر1958ءمیں یعنی آزادی کے محض11سال بعد ہی جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا آتے ہی ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دیں سیاسی جماعتوں کے خلاف قانون اور سیاسی رہنماﺅں کو نااہل قرار دے دیا پھر ان کے ذہن رسا میں ایک ” نابغہ¿ روزگار“ نظام کا خاکہ ابھرا چنانچہ جمہوری اداروں کو دفن کرتے ہوئے بی ڈی سسٹم رائج کیا یوں80 ہزار نمائندوں کو آئین سازی کے لئے ممبران چننے کا اختیار ملا اب ظاہر ہے یہ80 ہزار نمائندے دباﺅ میں آسانی سے لائے جا سکتے تھے اور پھر اسکے مظاہرے لوگوں نے دیکھے یوں یہ نظام اپنی قبر خود کھودتا گیا‘ جنرل یحییٰ آیا تو تجربہ کرتے کرتے آدھا ملک ہی گنوا دیا‘ پھر جنرل ضیاءکی باری آئی موصوف غیر جماعتی انتخابات کا کلچرلے کر آئے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں کمزور اور شخصیات و برادریاں طاقتور ہونے لگیں انہوں نے اپنا ہی ایک بلدیاتی نظام دیا جسکے تحت انہوں نے پھر1979ئ 1983ءاور1987ءمیں یعنی تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کرائے تینوں بار یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے سب سے بڑھ کر یہ کہ 1985ءمیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی انہوں نے غیر جماعتی بنیادوں پر ہی کرائے جس سے پاکستان کی سیاست میں روپے پیسے اور ذات برادری کے عنصر کو فیصلہ کن قوت حاصل ہوگئی اور آخر میں چوتھے آمر جنرل پرویز مشرف نے آکر گڈ گورننس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ان کے دور میں جنرل تنویر حسین نقوی نے راتوں رات ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا سسٹم ختم کرکے ڈپٹی کمشنر کے آزمودہ ادارے کو قصہ پارینہ بنا دیا اس کی جگہ ڈی سی او کے نام سے ایک ایسا عہدہ متعارف کرایا گیا جو پھر اگلے ایک عشرہ تک سب سے مظلوم اور محکوم پوسٹ رہی اور اس سے بھی سماج دشمن عناصر کے حوصلے بڑھتے چلے گئے جب مسائل کے جن بوتل سے نکل آئے تو سیاسی قیادت کو ہوش آیا اور پھر مجسٹریسی نظام کی بحالی کی باتیں ہونے لگیں تاہم پلوں کے نیچے سے کافی سارا پانی بہہ چکا تھا اور حالات انتہائی ابتر ہو چکے تھے حکومتی رٹ عملاً ختم ہو کر رہ گئی یوں نت نئے تجربات نے ملک و قوم کو ادھ موا کر کے رکھ دیا انگریزجب ہندوستان پر قابض ہوئے تو اسے ایک ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مٹھی بھر افسران کے ذریعے پورے برصغیر کو آسانی و کامیابی کے ساتھ کنٹرول کر سکے چنانچہ انہوں نے یہاں پر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام رائج کردیا یوں انگریز چار پانچ سو افسران کے ذریعے پشاور سے کلکتہ اور چترال سے بمبئی تک پورے ہندوستان کو کنٹرول کرنے لگے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے پھر اس کے نیچے سب ڈویژنل مجسٹریٹس اور ایگزیکٹیو مجسٹریٹس ہوا کرتے تھے یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثر اور بھرپور طریقہ سے کئے جانے کا نظام موجود تھا چنانچہ اس سسٹم کے خاتمہ تک یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کبھی امن وامان کی صورتحال اس قدر بگڑنے نہیں پائی جس طرح کہ2001ءمیں اس سسٹم کے نفاذ کے بعد اگلے ایک عشرے میں بگڑی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کے پاس کچھ عدالتی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے چنانچہ پھر ایک تحریک چلی کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کیا جائے پہلی مرتبہ1967ءمیں جنرل ایوب خان کے دور میں لاءریفارمز کمیشن بنا جو جسٹس حمود الرحمن پر مشتمل تھا اس کمیشن نے پہلی مرتبہ اس امر کی سفارش کی کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ کر دیا جائے چنانچہ1972ءمیں جب بھٹو صدر تھے تو انہوں نے لیگل ریفارمز آرڈیننس جاری کیا اور اسی کی روشنی میں1973ءکے آئین میں فیصلہ کیا گیا کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جائے گا اس کے لئے ٹائم فریم مقرر کیا گیا مگر بوجوہ اس ٹائم فریم پر عملدرآمد نہ ہو سکا حتیٰ کہ1996ءکا سال آگیا جب سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو واضح ہدایات جاری کیں کہ آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فوری طور پر عدلیہ و انتظامیہ کو الگ کیا جائے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی انہوں نے فیصلے پر من وعن عمل درآمد کیلئے مہلت مانگی تاہم ابتدائی اقدامات بھی شروع کئے تاہم1996ءکے اس قانون کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ‘ سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کے عہدے برقرار رکھے گئے ان کو امن وامان کے حوالے سے اہم نوعیت کے اختیارات دیئے گئے حکومتی رٹ کو بحال و برقرار رکھنے کے علاوہ قیمتوں پر قابو‘ ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی کے خاتمہ‘ تجاوزات کا قلمع قمع کرنے اور اس نوعیت کے وہ جرائم جن کی سزا3سال بنتی تھی اس کے ٹرائل کے اختیارات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس رہنے دیئے گئے‘ یوں مجسٹریسی نظام پر پہلی ضرب 1996ءمیں ہی لگی پھر1996ءسے 2001ءتک کے دوران یہ نظام غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار رہا اور2001ءمیں اس آزمودہ سسٹم کو بیک جنبش قلم ختم کر دیاگیا اگلے10سال کے دوران ذخیرہ اندوزوں‘ ملاوٹ مافیا‘ مہنگائی کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ مل گئی اور آخر کار چند سال بعد پورے ملک میں ہا ہا کار مچ گئی وہ لوگ بھی چیخنے چلانے لگے انتظامیہ کا کنٹرول ختم ہونے سے ہر ایک کو من مانی کا موقع مل گیا۔