جب آپ تاریخ کو بدل نہیں سکتے اورنہ ہی مٹا سکتے ہیں توپھر وہی کچھ کرتے ہیں جو ان دنوں بھارت کی انتہاپسند مودی سرکار کررہی ہے بھارتی حکمران جماعت اور حکمران اتحاد ان دنوںان مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کاربند ہے جو کسی مسلم شخصیت کے نام سے منسوب ہیں۔غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے سیاسی مفاد پرستی کی بو آتی ہے۔ ثقافت اپنی جگہ پر لیکن اس طرح ہزاروں سال کی تاریخ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندوﺅں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے نظریئے کے خلاف ہے اگر دیکھاجائے تو انتہاپسند بھارتی حکمران اتحاد این ڈی اے کے دور اقتدار کے آغاز یعنی2014ء سے اب تک ایک کام بڑی تیزی سے ہورہا ہے، جو سڑکوں ، شہروں اور میوزیم وغیرہ کے ناموں کی تبدیلی کا ہے۔ اگر کسی مقام کا نام گزشتہ حکومت کے کسی شخص یا اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمانوں کی کسی شخصیت سے موسوم ہے تو اسے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیشتر معاملات میں کامیاب کوششیں ہوئی ہیں۔ برسر اقتدار حکومت 2014ء سے لے کر اب تک60سے زائد مقامات کے نام تبدیل کرچکی ہے اور اب بھی ایسے کئی مقامات ہیں جن کے نام مستقبل میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔الہ آباد سے پریاگ راج، راج پتھ سے کرتویہ پتھ، فیض آبا د سے ایودھیا، فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم سے ارون جیٹلی اسٹیڈیم، مغل سرائے جنکشن سے دین دیال اپادھیائے اسٹیشن، گرگاﺅں سے گروگرام، جیسے اہم ناموں کے علاوہ بھارتی حکومت نے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں کئی یونیورسٹیوں کے نام بھی تبدیل کئے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے بڑے25 سے زائد قصبوں اور دیہات کے نام بدلے جاچکے ہیں۔ گزشتہ سال بی جے پی نے40 ایسے شہروں ، قصبوں اور دیہات کی نشاندہی کی تھی جن کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ ان کے نام مغلیہ حکومت سے ”متاثر“ ہیں جنہیں بدل کر ملک کو ”غلامی“ سے نجات دلانا ضروری ہے گویا انتہا پسند تاریخ کاانتقام اب بھارت کے مظلوم مسلمانوں سے لے رہے ہیں واضح رہے کہ جن شہروں کے مسلم نام تبدیل کئے جارہے ہیں ان میں سے کوئی بھی شہر تاریخ میں کسی ہندو شہر کے نام کو تبدیل کرکے بسایا نہیں گیا بلکہ مسلمان حکمرانوںنے نئے شہر مسلم ناموں سے آباد کئے اس کے باوجود ہندو انتہاپسند اب ہر صورت یہ نام تبدیل کرنے کے درپے ہیں جس کے لئے وہ حکومتی خزانے کے منہ کھولے ہوئے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک گاﺅں یا شہر کا نام تبدیل کرنے کا خرچ 200 کروڑ سے 500کروڑ روپے ہوتا ہے۔ اگر شہر یا مقام عالمی سطح پر بہت مشہور اور بڑا ہے تو اس کے نام کی تبدیلی میں ایک ہزار کروڑ روپے تک خرچ ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی شہر کا نام تبدیل ہوتا ہے اس کیلئے شاہراہوں پر لگائے گئے بورڈ، ریلوے اسٹیشن، بس اڈہ، ایئرپورٹ وغیرہ سبھی کا نام بدلا جاتا ہے، سرکاری دستاویزات میں حکومت کی ملکیت والی جائیداد کا نام بدل جاتا ہے، نقشے ، ریاستی اور شہری انتظامیہ کے ریکارڈز میں شہر کا نام تبدیل کیا جاتا ہے۔اس علاقے کی دکانوں ، باشندوں اور کمپنیوں وغیرہ کو بھی اپنے پتے میں تبدیلی کیلئے یہ عمل مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔ اس پورے عمل میں خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ اگر ایک مقام کا نام تبدیل کرنے کا خرچ 200 کروڑ روپے بھی تصور کرلیا جائے تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ نو سال میں 60 مقامات کے صرف نام تبدیل کرنے میںبھارتی حکومت نے کتنی رقم خرچ کی ہوگی بھارت میں غربت اور بیروزگاری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں مودی حکومت یہ دونوںمسائل حل کرنے میں مسلسل ناکام چلی آرہی ہے جس کے بعدمعیشت کو مستحکم کرنے اور بے روزگاروں کو روزگار دینے کے بجائے مودی حکومت صرف ووٹروں کو لبھانے کے لئے 21 ہزار کروڑ روپے مقامات کے نام تبدیل کرنے میں خرچ کرچکی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں شروع ہونے والا تنازع ”پریزینڈنٹ آف بھارت“ کا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مودی حکومت ”انڈیا“ کا نام تبدیل کرکے ”بھارت“ کرنا چاہتی ہے جس پر14 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اکنامکس ٹائمز کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ مرکزی حکومت اپنے ”تحفظِ خوراک پروگرام“ پر اس رقم کا نصف بھی نہیں خرچ کرتی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کیلئے اس کی ”اَنا“ اہم ہے یا شہریوں کا پیٹ بھرنا؟ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جو رقم خرچ کی جانی چاہئے، اسے مقامات کے نام تبدیل کرنے جیسے غیر ضروری عمل کیلئے خرچ کرکے بھارتی حکومت عالمی سطح پر کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے؟ اگر حکومت معیشت کا حجم بڑھنے کا دعویٰ کررہی ہے تو 28ہزار کروڑ جیسی رقم کو اسے مزید وسیع اور مستحکم کرنے میں استعمال کرنا چاہئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام بے روزگاری، مہنگائی، بدعنوانی، جرائم اور عوامی فلاح و بہبود کی کمی جیسے اہم مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات پر فخر کرنا زیادہ اہم خیال کررہے ہیں کہ انہیں ”غلامی“ سے نجات مل جائے گی یہ درحقیقت اس احساس کمتری کو کم کرنے کی کوشش ہے جو مسلمانوں کی ایک ہزارسالہ حکمرانی کی وجہ سے انتہاپسندوںمیں پائی جاتی ہے اسی لئے تو کبھی تاریخ مسخ کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے متنازعہ فلمیں بنائی جاتی ہیں اور کبھی مسلمانوں کے دیئے گئے نام تبدیل کرکے شہروں کو ہندو بنایاجاتاہے لیکن بھارتی انتہاپسندوں کو یاد رکھنا چاہئے اس قسم کی حرکات سے احساس کمتری تو ختم نہ ہوگا البتہ اپنے ہی لوگوں کی غربت اوربیروزگاری میں اضافہ ہوگا جس کو ختم کرنے کے لئے پھر مزیدشہروں کو مسلمان کیاجائے گا۔