احتجاجی ہیٹ ٹرک کی تیاریاں

پشاور یونیورسٹی ملازمین کا اتحاد ممکن ہے کہ دیرپا ہو کیونکہ جب تک مسائل حل اور مطالبات پورے نہ ہوں تب تک احتجاج کی ضرورت درپیش ہوگی جیک جامعہ پشاور نے گزشتہ کچھ عرصہ سے طویل طویل احتجاج ریکارڈ کروالئے اس میں یونیورسٹی سے پیدل چلتے ہوئے اسمبلی کے سامنے کئی ایک کا اپنا خون بہانا بھی شامل تھا جن میں اس وقت کے پیوٹا صدر اور جائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر فضل ناصر سرفہرست تھے ‘بعدازاں بھی طویل ہڑتال کی گئی جبکہ امسال کی43 روزہ ہڑتال اور تالہ بندی کیساتھ ساتھ طویل دھرنے نے تو یونیورسٹی کی73 سالہ تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرلیا مگر کیا کریں کہ اس کے باوجود بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا سیاسی جماعتوں کے مقامی اکابرین بھی جیک کے احتجاجی سٹیج پر جلوہ افروز ہو کراپنی جوشیلی تقاریر سے حکومت وقت کی خبر لیتے رہے اور حکومتی بڑے بھی کود کر یونیورسٹی ملازمین کو ان کے تمام مسائل کے حل اور مطالبات پورے ہونے کی یقین دہانیاں کراتے رہے درحقیقت مسائل حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملازمین کے مطالبات پورے ہونے کیلئے پیسہ چاہئے اور وہ کم از کم تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اداروں کے چلانے کیلئے دستیاب نہیں اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ملک بھر کی طرح یونیورسٹیوں کے ملازمین بھی سرکاری ملازمین ہیں مگر پھر بھی ہر سال ہر بجٹ میں اعلان کردہ مراعات سے محروم چلے آرہے ہیں امسال2023-24کے بجٹ میں جب مالیات کے وزیر باتدبیر نے گریڈ16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں35فیصد گریڈ17 اور اس سے اوپر کیلئے30 فیصد اور پنشن میں17.50فیصد اضافے کا جو اعلان کیا اور بعدازاں جتانے بھی لگے تو بعض سیانے دل ہی دل میں کہنے لگے کہ چلئے حکومت نے تو ازخود یونیورسٹیوں میں اضطراب ‘ احتجاج اور انتشار کا بیج بودیا‘ مطلب کہ محض اعلان تھا یعنی یہ نہیں کہا کہ یہ کل ملا کر82.50فیصد اضافے کی ادائیگی کیلئے تعلیمی بجٹ یا اخراجات جاریہ کی گرانٹ میں کتنا اضافہ کیا جا رہا ہے؟ یہ اضافہ وفاقی حکومت اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے فراہم کرے گی یا صوبائی حکومت کے ذمے ہوگا؟ نتیجتاً وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی ملازمین تو گزشتہ سال کے15فیصد اضافے‘15فیصد ڈسپیرٹی الاﺅنس اور15فیصد پنشن اضافے کیلئے مضطرب تھے اوپر سے یہ زبانی کلامی دوگنا اضافہ بھی آگیا‘ لہٰذا تین مہینے تک تو ملازمین نے صبر کا دامن تھامے رکھا مگر آخر کار تنگ آمدبہ جنگ آمد کے مصداق احتجاج ہی پر اتر آئے اور یوں جیک پشاور یونیورسٹی نے تو پہلے مرحلے میں23اگست سے بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر علامتی احتجاج شروع کیا دوسرے مرحلے میں روزانہ صبح10 بجے سے دوپہر12بجے تک کام کاج کو خیرباد کہتے ہوئے ہڑتال شروع کردی مگر حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل یا اشارہ نہیں ملا تو تیسرے فائنل مرحلے میں11ستمبر سے مکمل تالہ بندی کا اعلان کردیا گیا جو کہ ان سطور کے لکھنے تک برقرار تھا مگر نگران وزیر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر قاسم جان جو کہ ایک مایہ ناز قومی ماہر تعلیم‘ بہترین منتظم اور پشاور یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی کے ہمیشہ یاد رہنے والے وائس چانسلر رہ چکے ہیں ‘نے جب حالات کی نزاکت کا نوٹس لیتے ہوئے خود ملازمین کے پاس آ کر انہیں اعتماد میں لیا اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ‘ ملازمین نمائندوں اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے حکام کو بلاکر جامعہ پشاور سمیت صوبے کی پرانی جامعات کے مالی بحران پر اجلاس منعقد کرکے مسئلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کا عزم ظاہر کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے جیک کے منتظمین کے رویئے میں بھی قدرے نرمی دیکھنے میں آئی تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پیر11ستمبر سے امسال تاریخی درسگاہ میں دوسری بار تالہ بندی ہوگی یا جیک حکومت کو ایک موقع دینے کے حق میں ہوگی؟ ساتھ ہی یونیورسٹی کے قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر جہان بخت نے بھی وقت ضائع کئے بغیر یونیورسٹی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی طلب کرکے تنخواہوں میں امسال ہونیوالے بھاری بھر کم اضافے کی منظوری بھی حاصل کرلی کہ جلد ہی سنڈیکیٹ کے سامنے رکھی جائے گی لیکن غالباً گمان یہ ہے کہ حسب روایت یونیورسٹی سنڈیکیٹ یہ فیصلہ کرے کہ اضافے اور اس کی ادائیگی منظور ہے مگر یہ تب فراہم ہوگی جب یونیورسٹی کے ہاتھ میں پیسے آجائےں۔