چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر سماعت کر رہی ہے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس انڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔ وفاقی حکومت نے موقف اپناتے ہوئے استدعا کی کہ پارلیمنٹ کے قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں لہٰذا درخواستیں خارج کی جائیں۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس کے مطابق پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے اور آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بینچ مل کر کام کریں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں، ہم نے براہ راست کوریج کی اجازت دے دی ہے اور براہ راست کوریج میں خلل نا آئے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا کیونکہ بینچ میں کچھ ججز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ کیس سن رہے ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی فل کورٹ سماعت کی عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کے معاملے پر فل کورٹ اجلاس میں اتفاق ہو گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔
فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز نے شرکت کی۔
عدالتی کاروائی براہِ راست دکھانے کے لیے 5 کیمرے کمرۂ عدالت نمبر 1 میں جبکہ 4 کیمرے وزیٹرز گیلری میں لگائے گئے ہیں کیمرا ججز ڈائس کے سامنے وکلاء کے روسٹرم کے لیے نصب کیا گیا ہے۔
اجلاس کے بعد فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کرے گی۔