تم زمانے کی راہ سے آئے

امریکہ میں جن چیزوں کو بے اعتبار کہا جاتا ہے ان میں سر ِ فہرست موسم ہے ایک دن موسم خاصا گرم اوردوسرے ہی دن خاصا سرد تو خیر اور بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ہو تا ہے بلکہ گاہے گاہے پاکستان میں بھی اگر بہت گرم دن کے دوسرے ہی دن نہ بھی ہو تو اگلے چند ایک دنوں میں یہ تبدیلی نظر آ ہی جاتی ہے خصوصاََ ساون بھادوں اور اسوج کے موسم میں جب حبس بہت بڑھ جاتا ہے تو دوسرے ہی دن بارش سے جل تھل ایک ہو جاتا ہے بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے کہ
 مینہ خوب برستا ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
 بہتے ہیں ظفر اشک ، دم ِضبط فغاں اور 
 لیکن امریکہ کی کولو راڈو سٹیٹ میں تو ایک ہی دن میں آپ کو کئی موسوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے، صبح کو سردی کی وجہ سے پہنی ہوئی گرم جیکٹ گھنٹہ بھر بعد گرمی کی شدت سے بوجھ بن جاتی ہے، دوپہر میں بارش،سہ پہر میں پھر سے گرمی اور سرشام تیز خنک ہوائیں مزاج پرسی کو آ جاتی ہیں ، اگر چہ یہاں رہنے والوں کو موسم سے کچھ زیادہ لینا دینا اس لئے نہیں ہوتا کہ ایک تو وہ بہت مصروف رہتے ہیں موسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما ہو جائے تو اور بات ہے ورنہ موسم پر تبصر ہ بہت کم کم کیا جاتاہے، اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر ہوںدفاتر ہوں،شاپنگ مال یا پھر گاڑیاں‘ بسیں اور ٹرین موسم کی مناسبت سے ان کا ماحول گرم یا ٹھنڈا ہوتا ہے بس یہ موسم پارکنگ سے چند گز دور کسی بھی عمارت تک پہنچنے کے راستے میں ہی ان کو تنگ کرتے ہیں، البتہ ویک اینڈ کےلئے ان کی دعا یہی ہوتی ہے کہ موسم مہربان ہو تا کہ وہ تفریح کے لئے کہیں پہاڑوں کی اور سفر کر سکیںیا پھر اپنی اپنی کمیونٹی کے احباب مل بیٹھنے کی کوئی صورت نکال سکیں، لیکن یہ مل بیٹھنے کا ر وگ بھی کم کم لوگ ہی پالتے ہیں ،جاب اور گھر کے علاوہ بہت سے لوگوں کو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں جو رفتہ رفتہ ان کی مردم بیزاری میں بدل جاتا ہے، بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے ایک ہی چھت تلے رہنے والے مصروفیت کے بھنور میں پھنس کر ایک دوسرے سے اتنے دور ہو جاتے ہیں کہ ہفتوں مہینوں تک ان کو ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا یا ناشتہ کرنا بھی نصیب نہیں ہوتا اور اس بات کا بہت دیر میں ان کو احساس ہوتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کےلئے عدیم ہاشمی کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے ہیں؛ 
 فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
 سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا 
 باہر کی دنیا کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہاں رہنے والے بہت ہی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، جزوی طور پر شاید یہ بات زیادہ غلط بھی نہیں ہے کہ وہ ایک متوازن اورعمدہ سسٹم میں لگی بندھی بہتر زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جاب وہاں آکسیجن کی طرح ناگزیر ہے اور جاب ہونے کی صورت میں ہی انہیں ر ہنے اور کھانے پینے کی عمدہ سہولتیں حاصل ہوتی ہیں البتہ جن کو اپنے وطن میں اپنی باقی فیملی کو سپورٹ کرناہوتا ہے یا کچھ پس انداز کرنے کی فکر ہوتی ہے انہیں پھر ایک سے زیادہ جاب کی تلاش کرنا پڑتی ہے یہ اور بات کہ اس طرح ان کی سوشل زندگی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ، مانو وہ پھر میکانیکی زندگی گزار نے پر مجبور ہوتے ہیں ، ان کے سسٹم میں قانون کی عملداری کی وجہ سے گرد و پیش کی بہت سی چیزیں واقعی بہت خوبصورت نظر آتی ہیں اور بڑی حد تک ہوتی بھی ہیں، لیکن زیادہ تر اشیا کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے، کیو نکہ اس سسٹم کا حصہ بننے کےلئے یہاں رہنے والوں کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے، وہ جو ساحر لدھیانوی نے کبھی کہا تھا کہ ” یہ بات بات پہ قانون و ضابطہ کی گرفت، “ تو باہر کی دنیا میں ایک ان دیکھا انجانا سا خوف بھی بہت سے لوگوں کو سہما سہما سا رکھتا ہے، ’ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے ‘ کے مصداق ان ممالک میں آ کر بسنے والے لوگ گھر پر ہوں دفاتر میں ، سڑک پر ہوں یا مارکیٹس میں وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے، گاڑی چلاتے ہوئے ذرا سی غلطی پر چالان ہونے کی صورت میں ان کے لائسنس پر پوائنٹ لگ جاتے ہیں جو غلطی دہرانے پر لائسنس کے معطل ہونے پر منتج ہو تے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک بھلے سے کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو اپنی ’ لین‘ سے باہر نہیں نکلتے بسا اوقات میل دو میل کا فاصلہ رش کے اوقات میں کئی گھنٹے لے لیتا ہے مگر ایسی صورت حال میں بھی اوور ٹیک کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا البتہ کچھ ” فاسٹ ٹریک “ بھی یہاں موجود ہیں ، کبھی ایک چٹکلہ سنا تھا کہ ’ کسی شخص نے ایک گاڑی خرید ی تو دوستوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا ” گاڑی تو مبارک ہو مگر جس طرح تم گاڑی چلاتے ہو اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ ایک سڑک بھی خرید لو “ مگر یہ لطیفہ اس وقت سچ ثابت ہوا جب ڈینور سے نیو جرسی آنے کے لئے مجھے ائر پورٹ جانا تھا جو گھر سے گھنٹہ سوا گھنٹہ کے فاصلہ پر ہے ، میں نے افراز علی سیّد سے کہا کہ بیٹے ہمیں دیر نہیں ہو رہی ہے تو اس نے کہا، نہیں پاپا ہم فاسٹ ٹریک سے چلیں گے ،وہی ہوا جب ہم فاسٹ ٹریک سے چلے تو واقعی سڑک خالی پڑی ہوئی تھی ،میں نے حیران ہو کر پوچھا ا±دھر اتنی رش ہے تو یہ لوگ اس طرف کیوں نہیں آجاتے تو افراز علی سیّد نے مسکرا کر کہا ” پاپا یہ ’ فری وے ‘ ہے اور پیڈ ہے مطلب یہ کہ اِدھر سے گزرنے والی گاڑی کو ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس پر ٹریفک بھی نہیں ہوتی اور سپیڈ بھی ساٹھ کی بجائے اسّی میل فی گھنٹہ تک بڑھ جاتی ہے اور یہ بالکل سیدھی سڑک ہے ، واقعی اس سیدھے راستے سے گزرتے ہوئے ہم بہت جلد ائر پورٹ پہنچ گئے تو مجھے باقی صدیقی یاد آگئے
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا