اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

حلقہ ارباب ذوق پسکاٹ وے نیو جرسی امریکہ کے سیکرٹری شاعر و افسانہ نگار ڈاکٹر عامر بیگ کے شعری مجموعہ ’ محبت استخارہ ہے‘ کی تقریب رونمائی ستمبر کی 9 ویں شام کو ہو نا تھی اس لئے ارادہ یہی تھا کہ لندن سے پہلے نیو یارک آ جاو¿ں گا اور اس تقریب کے بعد کچھ دنوں کےلئے کو لوراڈو کے شہر ڈینور برخوردار افراز علی سیّد کے پاس ہفتہ ڈیڑھ گزار کر واپس نیو یارک آ جاو¿ں گا پھر نیو یارک میں چند تقریبات کے بعد واپس ڈینور لوٹ جاو¿ں گا کیونکہ سخنور شکاگو کے 30 ستمبر کے عالمی مشاعرہ میں شریک ہونے جانا تھاارادہ تھا کہ دو ہفتے نیویارک میں گزارنے کے بعد واپس ڈینور چلا جاو¿ں گا مجھے لند ن سے نیو یارک کی کوئی ڈائرکٹ فلائٹ نہیں مل رہی تھی اور کنکٹڈفلائٹ میں لینا نہیںچاہتا تھا، بالآخر دوست مہرباں عتیق صدیقی سے مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ نیویارک کی بجائے ڈینور کی فلائٹ لی جائے ،جو افراز علی سیّد اور ابتسام علی سید کی مشترکہ تلاش سے برٹش ائیر ویز میں آسانی سے مل گئی،مگر اب یہ مسئلہ در پیش تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے نیو جرسی جانا تھا جو ڈینور سے ساڑھے چھ گھنٹہ کی فلائٹ پر ہے، ڈاکٹر عامر بیگ سے رابطہ کیا اور تقریب رونمائی کو 23 ستمبر تک مو¿خرکرنے کو کہا، لیکن ان تاریخوں میں نیویارک میں میرے لئے احباب نے یکے بعد دیگرے کچھ تقریبات کا سوچ رکھا تھا اس لئے 16 ستمبر فائنل ہوئی اس طرح مجھے افراز علی سیّد کے پاس دو ہفتے گزارنے کا موقع مل گیا مگر وہاں بھی مسلسل تقریبات اور دعو توں کی وجہ سے گھر بیٹھنے کا موقع نہ مل سکا، اس لئے ننھی اریبہ اور عمارہ نے دادی (رفعت علی سیّد)کو نیو یارک جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ، یوں 2013 ءکے بعد پہلی مرتبہ
 مجھے نیو یارک اور نیو جرسی کے جڑواں شہروں کی ادبی تقریبات کےلئے اکیلا آنا پڑا ، صبح 9 بجے نیو آرک ( نیو جرسی ) ائر پورٹ پہنچا جہاں ہمیشہ کی طرح شگفتہ چہرے اور محبت بھری مسکان ہونٹوں پر سجائے دوست مہرباں عتیق احمد صدیقی استقبال کےلئے مو جود تھے، میں نے انہیں بہت منع کیا کہ آپ زحمت نہ کریں کیونکہ ایک تو میری فلائٹ بہت صبح پہنچنا تھی دوسرے کچھ دن پہلے ہی ان کو جراحت کے عمل سے گزرنا پڑا تھا مگر ان کی پر خلوص ،بے لوث اوربے کراں محبت کی کچھ اپنی ہی اقدار ہیں‘سو بر وقت ائر پورٹ آنے کےلئے وہ ایک رات پہلے ہی نیو جرسی پہنچ گئے تھے ، عتیق صدیقی کی طرح میرا بھی اس ائر پورٹ کا یہ پہلا تجربہ تھا وہ بتا رہے تھے کہ آپ کے ائر ٹکٹ پر ٹرمینل چار لکھا تھا مگر ائر پورٹ پر ٹرمینل کے نام ایک دو تین کی بجائے اے بی سی میںلکھے ہوئے تھے تاہم عتیق صدیقی کی محبت نے ان کی رہنمائی کی اور وہ ڈاکٹر عامر بیگ سے بہت پہلے پہنچ گئے تھے ، ائر پورٹ سے نکل کر عتیق صدیقی نے نیو جرسی کے معروف و مقبول ” شاہی پیلس“ میں شاندار برنچ کرایا۔ مجھے یاد آیا کہ اسی ہوٹل میں چار سال پہلے معروف شاعرہ فرح کامران نے میرے لئے ایک شعری نشست کا ا ہتمام کیا تھا
 اور اپنے مرحوم شریک حیات کی بہت عمدہ کتاب ” مہا بھارت “دی تھی ، شام کو تقریب میں عتیق صدیقی سمیت جن بہت سے دوستوں سے ملاقات نے سرشار کر دیا، ان میں شاہد کامریڈ، محمد یوسف خان، زریں یاسین، محمد یاسین زبیری ، مامون ایمن،پروفیسر حماد خان اور ہمدم دیرینہ ڈاکٹر محمد شفیق تھے، ڈاکٹر محمد شفیق پر اس دوراں کئی قیامتیں گزر گئیں پہلے جواں سال بیٹے اور پھرجواں سال اورعزیز ازجاں بیٹی کو وہ کھو بیٹھے تھے، میں سوچتا ہوں اتنے جان لیوا سانحوں کے بعد تو ” جاں سے وہ گزر جاتا، کوئی دوسرا ہوتا “ لیکن دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہونے کےلئے وہ بھی شریک محفل تھے‘ عتیق صدیقی واپس جانے سے پہلے میرے لئے تقریب کا اہتمام شاہد کامریڈ کو سونپ گئے، ڈاکٹر شفیق خیبر سوسائٹی کی تقریب کی بات کر رہے تھے جس میں دوست عزیز زمان آفریدی، تاج اکبر اور ڈاکٹر جمشید خان بھی شامل ہیں، اسی طرح میرے گرائیں اور برادر اصغر سید نا ظم علی شاہ کے دوست اور کلاس فیلو سلیم صدیقی کا فون آیا ان سے میری ملاقات مرحوم جوہر میر کے جیکسن ہائٹس والے اپارٹمنٹ میں ربع صدی پیشتر اس وقت ہوئی تھی جب میں 1999ءمیں پہلی بار امریکہ آیا تھا،میں نے انہیں یاد دلایا کہ جوہر میر کے اپارٹمنٹ میں تو اکوڑہ خٹک کے فتح من اللہ کے بھائی نصر من اللہ بھی مجھے ملنے آئے تھے ، کہنے لگے جی جی وہ وہاں قریب ہی رہتے تھے مگر ابھی دو ماہ پہلے ان کا انتقال ہوگیا ہے‘بہت دیر تک ہم پرویز اور احمد اللہ ( شیرو) سمیت جانے کن کن دوستوں کو دیر تک یاد کرتے رہے ،احمد مشتاق نے خوب کہا ہے۔
 اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
 او ر اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے