دنیا کا مہنگا ترین ملک، جہاں رہنے سے سستا روزانہ دوسرے ملک جاکر آنا ہے

لکسمبرگ پاکستان کے شہر کراچی سے بھی چھوٹا ایک ملک ہے، جہاں کی آبادی صرف 6 لاکھ 60 ہزار ہے، لیکن یہاں تقریباً ہر شخص ہی کروڑ پتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہاں کا معیار زندگی اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ لوگوں کے لیے اس ملک میں زندہ رہنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ پیسہ بچانے کے لیے لوگ یہاں دن بھر کام کرتے ہیں اور رات کو دوسرے ممالک میں جا کر رہتے ہیں۔

لکسمبرگ میں گھر خریدنے یا کرائے پر لینے کے لیے لوگوں کو بہت زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق پاسکل جاورو نامی ایک ٹیچر کو گھر کرائے پر لینے کے لیے پانچ سال تک انتظار کرنا پڑا۔

یہاں دو کمروں کا فلیٹ حاصل کرنے کے لیے ہر ماہ 2000 یورو یعنی پاکستانی تقریباً 6 لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

یہاں سستا گھر ملنا نایاب ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور سنگل پیرنٹس کے لیے یہاں کے اخراجات برداشت کرنا ناممکن ہے۔

اگر آپ صرف ایک کام کر رہے ہیں اور آپ کے پاس آمدنی کا کوئی اضافی ذریعہ نہیں ہے تو دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک لکسمبرگ میں رہنا آسان نہیں ہے۔

یورپی یونین کے تمام ممالک میں فی کس کاروں کی تعداد لکسمبرگ میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں 60 فیصد سے زیادہ لوگ دفتر جانے کے لیے اپنی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ صرف 19 فیصد لوگ ٹرانسپورٹ کے سرکاری ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں سڑکوں کی بھیڑ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو مفت کر دیا گیا۔

سال 2019 میں، لکسمبرگ دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا جس نے ملک میں کہیں بھی آنا جانا مفت کر دیا تھا۔

یعنی اگر آپ سرکاری ٹرینوں، ٹراموں اور بسوں میں سفر کرتے ہیں تو آپ کو کوئی کرایہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ پڑوسی ملک میں آباد لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ آسانی سے اپنے ملک میں آکر کام کرسکیں۔

مہنگائی کی وجہ سے لکسمبرگ کے لوگ اتنے بے بس ہیں کہ وہ وہاں رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

زندہ رہنے کے لیے انہیں بیلجیم یا فرانس جیسے ممالک جانا پڑتا ہے۔

یہ لوگ روزانہ اپنے ملک میں کام کرنے آتے ہیں اور شام کو رہنے کے لیے دوسرے ملک چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کا کرایہ بہت کم ہے اور معیار زندگی بھی زیادہ مہنگا نہیں ہے۔