وزیراعلیٰ سندھ کا درسی کتب کی چھپائی کیلیے ایک ارب جاری کرنے کا حکم

  کراچی: نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے  نصابی کتابوں کی چھپائی کے لیے ایک ارب روپے جاری کرنے اورکالج اساتذہ کیلیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم تیار کرنے کا حکم دے دیا۔ 

نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے اسکول اینڈ کالج ایجوکیشن کے محکموں کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نصابی کتب کی چھپائی کیلیے ایک ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی اور ساتھ ہی محکمہ کالج کو ہدایت کی کہ لیکچرارز کی حاضری و تدریسی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کیلیے تمام کالجوں کا ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم تیار کیا جائے۔

بدھ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں اجلاس ہوا جس میں وزیر تعلیم رعنا حسین، چیف سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری حسن نقوی، سیکریٹری خزانہ کاظم جتوئی، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن شیریں ناریجو، سیکریٹری کالجز صدف انیس اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

سیکریٹری اسکول ایجوکیشن شیریں ناریجو نے ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ کو بتایا کہ 80 فیصد طلبا (اسکولوں) کو (مفت) نصابی کتب مل چکی ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ 20 فیصد طلبا  نصابی کتابوں کے بغیر پڑھ رہے ہیں جو کہ ناقابل قبول ہے۔

وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ فنڈز کی کمی کے باعث کتب کی اشاعت نہ ہوسکی ۔ اس پر وزیراعلیٰ نے سیکرٹری خزانہ کاظم جتوئی کو ہدایت کی کہ وہ آج شام تک محکمہ اسکول ایجوکیشن کو ایک ارب روپے جاری کریں تاکہ بقیہ کتابوں کی طباعت کیلیے وینڈر کے واجبات کی ادائیگی کی جاسکے۔

سیکریٹری کالج ایجوکیشن صدف انیس نے وزیراعلیٰ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام کالجز میں مانیٹرنگ اور انسپکشن سسٹم تیار کر رہی ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ کالج کے بیشتر اساتذہ نہ تو کالجوں میں آ رہے ہیں اور نہ ہی کلاسز لے رہے ہیں۔

جسٹس باقر نے سیکریٹری کالجز کو ہدایت کی کہ وہ ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم تیار کریں تاکہ کالج میں اساتذہ کی حاضری ، موجودگی اور تعلیمی سرگرمیوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ زیادہ تر کالجوں میں بالخصوص سائنس، ریاضی و انگریزی مضامین کے اساتذہ نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ (سیکرٹری کالج)ایک جیسے اور آرٹس مضامین کے اساتذہ کو کالج میں مرکوز نہ کریں بلکہ انہیں معقول بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہ کالج میں اساتذہ کی کمی کو فاضل اساتذہ کے ساتھ عملاً ترجیح دینی چاہیے۔

نگران وزیراعلیٰ نے سیکریٹری کالجز کو ہدایت کی کہ وہ ہر کالج میں تدریسی عملے کو معقول بنائیں اور مطلوبہ مضمون کے لیکچرارز کی تعیناتی کو یقینی بنائیں۔ جسٹس باقر نے سیکریٹری ایجوکیشن کو ہدایت کی کہ وہ طویل عرصے سے غیر حاضر لیکچرارز کا ڈیٹا اکٹھا کریں اور ان کے کیسز کو ایف آئی اے کی جانب بھجوائیں تاکہ ان کی ملازمت کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے اور غیر حاضری کے عرصے میں لی گئی تنخواہوں کی وصولی کی جائے۔

وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت 369 کالجز ہیں جن میں سے 91 سائنس کالجز، 45 آرٹس اینڈ کامرس، چار آئی ٹی، دو ہوم اکنامکس اور فزیکل اور 221 مکس ہیں۔ ان کے علاوہ 11 کیڈٹ کالج اور پانچ IBA کمیونٹی کالج تھے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ کالجز میں کل انرولمنٹ 588331 ہے جن میں 7111 تدریسی اور 6640 غیر تدریسی عملہ ہے۔ کالجز کی تدریسی عمل کیلئے سندھ ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کا انتظام ٹرسٹ کے ذریعے کرتی ہے۔ سندھ ایجوکیشنل فنڈ ٹرسٹ قابلیت کی بنیاد پر مستحق طلباء کو وظائف دیتا ہے تاکہ وہ آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیسن اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔

وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ انڈومنٹ فنڈ میں 6811 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جس سے 918.126 ملین روپے کا منافع کمایا گیا ہے اور اب تک ہونے والے اخراجات 839.676 ملین روپے ہیں اور 78.45 ملین روپے کا منافع ٹرسٹ کے پاس موجود ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 20-2019 سے 24-2023تک 21000 سے زائد طلبا مستفید ہوئے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے محکمہ کالج ایجوکیشن کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ڈائریکٹر جنرلز، ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کو متحرک کریں تاکہ وہ کالجوں کا معائنہ کرتے رہیں۔ کالجوں اور دیگر تعلیمی نظاموں کے معائنے کے نظام کو جان بوجھ کر بدعنوانی، نااہلی اور سستی کی وجہ سے روک دیا گیا ہے لیکن اب اسے بحال کیا جانا چاہیے۔