اِدھر ا±دھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں

عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی میں بدلاو¿ پر گزشتہ کچھ برسوں سے بہت بات ہو رہی ہے، لیکن اس کے لئے کوئی مناسب لائحہ عمل سامنے نہیں آ سکا، ماحول میں ان دنوں گرمی کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اور جن گرم مرطوب علاقوں میں گرمی سردی کا ایک لگا بندھا کیلنڈر تھا وہاں ان علاقوں میں عام آدمی کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ موسم کب تبدیل ہو گا،ہر شخص جانتا ہے کہ مئی جون جولائی اور اگست کا موسم گرم ستمبر اکتوبر معتدل جب کہ نومبر ،دسمبر ،جنوری اور کسی حد تک فروری بھی جاڑے کا موسم رہتا ہے جس کے بعد بہار اور بارشوں کی رت چھانے لگتی ہے مگر پہلے پہل مئی کا موسم سرد ہو نا شروع ہو گیا اور پھر گرم موسم نے ستمبر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب اکتوبر اس کی زد پر ہے، اس تبدیلی کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں جن میں ماحول کو گرم رکھنے اور دیگر ضروریات کےلئے کوئلہ تیل اور گیس کے استعمال سے لے کر عمارات اور فرنیچر کےلئے جنگلات کی بے دردی سے کٹائی تک کے کئی اقدامات شامل ہیں ان سے ایک طرف موسم گرم ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اس گرمی سے پہاڑوں پر پڑنے وا لی برف اور بڑے بڑے گلیشئیر بھی پگھلنے لگے جس سے بستیوں میںسیلاب آنے کے خطرات کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور مزیدبڑھنے کی پیشگوئی کی جارہی ہے ۔ دوسری طرف بہت سے پہاڑ وں کو بھی تیزی سے کاٹا جارہا ہے تا کہ عمارات کےلئے پتھرحاصل کیا جاسکے ، کتنے ہی خوبصورت پہاڑ جگہ جگہ سے کٹے پھٹے کتنے بھو نڈے اور بد صورت لگنے لگے ہیں مگر حکومتی سطح پر یا ماحو ل کی بہتری کےلئے کام کرنےوالی تنظیموں کی سطح پر بھی کسی کو اس رائیگانی کا احساس تک نہیں ہے البتہ انفرادی سطح پر گاہے گاہے کوئی آواز سنائی دیتی ہے، جس طرح گزشتہ ادوار میں مجید امجد نے ایک گاتی گنگناتی نہر کے کناروں پر ایستادہ د رختوں کی کٹائی کا نوحہ ” توسیع شہر “ کے نام سے لکھا تھا
 گھنے سہانے چھاو¿ں چھڑکتے بور لدے چھتنار 
 بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
اور ایسی ہی ایک اور دلسوزی میں بھیگی ہوئی آواز ابھی کچھ دن پہلے سنائی دی جب گندھارامیڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اردو پشتو اور انگریزی زبان کے معروف شاعر ڈاکٹر اعجاز حسن خٹک نے صاحبِ سیف و قلم شاعر خوشحال خان خٹک کے مزار پر حاضری دی اور وہاں جا کر اور ارد گرد کے خوبصورت پہاڑوںکو بری حالت میں دیکھ کر ان کا دل کٹ کر رہ گیا، مزار کی خوبصورتی میں اضافہ کرنےوالے پہاڑ وں کو پتھروں کےلئے کاٹ کاٹ کر بد شکل بنایا جارہا تھا اور پھر ان پتھروں کو وہیں پر تراش خراش کے عمل سے گزارنے کی وجہ سے چار دانگ عالم میں مشہور و مقبول شاعرخوشحال خان خٹک کے مزار کے بیرونی مناظر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے تھے انہوں نے واپس آ کر سب سے پہلے وزیر اطلاعات فیروز جمال شاہ کو خط لکھا کہ ملکی اور غیرملکی سیاح اور خوشحال خان خٹک کے عقیدت مند انکے مزار دیکھنے کےلئے آئے دن آتے ہیں وہ کیا تاثر لے کر جائیں گے کہ ہم اپنے تہذیبی اثاثہ کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتے، چونکہ میرا تعلق بھی خوشحال بابا کے گاو¿ں سے ہے اس لئے ان کی محبت کہ مجھے بھی فون کر کے مزارِ خوشحال کی بد حالی کے حوالے سے متعلقہ حکام تک بات پہنچانے کا کہا میں چونکہ ان دنوں امریکہ میں ہوں اس لئے میں نے معروف شاعر اور خوشحال ادبی جرگہ کے فعال جنرل سیکرٹری خان محمد تنہا کو ساری صورت حال سے آگاہ کیاتو جرگہ کے صدر محمد جان جہانگیر نے نہ صرف فوری طور پر اجلاس بلایا بلکہ پہلے جرگہ کے اراکین کےساتھ خوشحال بابا کے مزار پر جا کر صورتحال کا خود جائزہ لیا اور پھر اعلیٰ صوبائی حکام سے ملاقات کےلئے وفد بھی تشکیل دیا‘ دیکھئے کہ نگران حکومت کے صاحبان اقتدار کیا احکامات جاری کرتے ہیں مگر مجھے ڈاکٹر اعجاز حسن خٹک کی توجہ دلانے سے یاد آیا کہ انکا تعلق چونکہ ایک ادبی اور علمی خانوادہ سے ہے اور انہوں نے شاعر و نقاد و محقق پور دل خٹک اور اپنے عالمی شہرت یافتہ شاعر،محقق ،ماہر تعلیم اور حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر میں کئی اہم عہدوںپر فائز رہنے والے چچا اور سسر پریشان خٹک کی گود میں پرورش پائی ہے اور پریشان خٹک ہی کی مساعی سے اس وقت کے صدر پاکستان اور صوبائی گورنر نے مزار خوشحال بابا پر ہونےوالی کانفرنس میں شرکت کی مزار تک کی پختہ سڑک سے لےکر خوشحال لائبریری کے قیام کو ممکن بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا،اس لئے اعجاز حسن خٹک کا دکھ دہرا تھا ، ایک طرف ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مزار کی ناگفتہ بہ حالت تھی تو دوسری طرف انکے پرکھوں کی محنت اور محبت بھی تھی، اس مسئلہ کےساتھ ساتھ اسی دوران ایک اور المیہ کی طرف برخوردار سید کمال شاہ نے توجہ دلائی ہے، بہت سے دوسرے شہروں اور بڑے قصبوں کی طرح اکوڑہ خٹک میں بھی ہفتہ وار ایک میلہ لگتا ہے کبھی یہ مویشیوںکی خرید و فروخت کےلئے مختص تھا مگر پھر یہ ” بدھ بازار “‘ کی شکل اختیا کر گیا ہے، مگر ” توسیع شہر“ کے ہاتھوں پہلے گل بہار میں پاو¿ں جمائے رہا اور اب خوشحال بابا لائبریری کے صدر دروازے کے عین سامنے بدھ کا میلہ لگتا ہے، سید کمال شاہ کو لائبریرین نے بتایا کہ بدھ کا سارادن صبح سویرے سے لےکر شام ڈھلے تک لائبریری آنے کا راستہ بلاک رہتا ہے ریڈنگ روم سمیت ساری لائبریری بدھ کے میلے کی پر شور آوازوں سے بھر جاتی ہے‘ ایسے میں مطالعہ ممکن نہیں ہوہتا۔