بھارتی سپریم کورٹ نے 27سال پرانے مقدمے میں ایک عمر رسیدہ شخص کو اپنی چھ دہائیوں پرانی بیوی کو طلاق کا حق دینے سے انکار کر دیا۔
بھارت کے بیشتر حصوں میں طلاق بدستور ممنوع ہے، ہر 100 میں سے صرف ایک شادی ٹوٹتی ہے اور اکثر ان شادیوں کو برقرار رکھنے کی وجہ خاندانی اور سماجی دباؤ ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طلاق کے خواہاں افراد کے لیے عدالتوں سے منظوری لینا ضروری ہے تاہم عدالتیں صرف اسی صورت میں طلاق کی منظوری دیتی ہیں جب ظلم، تشدد یا غیر مناسب مالی مطالبات کا ثبوت پیش کیا جائے۔
89 سالہ نرمل سنگھ پنیسر نے 1963 میں شادی کی تھی لیکن بھارت کے بدنام زمانہ فوجداری نظام انصاف میں دائر درخواست میں کہا تھا کہ ان کا رشتہ 1984 میں ٹوٹ گیا تھا اور اب جڑ نہیں سکتا۔
جب نرمل سنگھ کی بھارتی فضائیہ نے چنئی تعیناتی کی تھی تو ان کی 85سالہ اہلیہ نے اس وقت ان کے ساتھ چنئی جانے سے انکار کر دیا تھا۔
نرمل نے پہلی بار 1996 میں ظلم اور بیوی کے نامناسب رویے کی بنیاد پر طلاق کے لیے درخواست دائر کی تھی جسے 2000 میں ضلعی عدالت نے منظور کر لیا تھا لیکن پرمجیت کی اپیل کے بعد اس سال کے آخر میں اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
اس کیس کو سپریم کورٹ تک پہنچنے میں مزید دو دہائیاں لگیں جہاں عدالت نے اتفاق کیا کہ اس شادی میں اب کوئی راحت نہیں لیکن اس کے باوجود طلاق کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
جمعرات کو شائع ہونے والے عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ شادی کو اب بھی بھارتی معاشرے میں شوہر اور بیوی کے درمیان زندگی کا پاک، روحانی اور انمول تعلق سمجھا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ شادی کے خاتمے کی درخواست کو منظور کرنا پرمجیت کے ساتھ ناانصافی ہو گی، جہاں خاتون نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ طلاق یافتہ خاتون کے بدنما داغ کے ساتھ مرنا نہیں چاہتیں۔
پرمجیت نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے اس مقدس رشتے کا احترام کرنے کی تمام کوششیں کی ہیں اور وہ اب بڑھاپے میں بھی اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے تیار ہیں۔
27سال سے مقدمات میں الجھے ان میاں بیوی کے تین بچے ہیں۔
بھارتی بوسیدہ نظام انصاف میں کچھ مقدمات کے حل تک پہنچنے میں دہائیاں تک لگ جاتی ہیں اور بعض اوقات جب مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے تو مدعی جہان فانی سے کوچ کر چکا ہوتا ہے۔
حکومت نے گزشتہ سال کہا تھا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں تقریباً 4 کروڑ 32 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔